جرائم

بلال کاکا نامی نوجوان کے قتل کے بعد سندھ بھر میں پختونوں کی زندگی اجیرن

محمد بلال یاسر

سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ہوٹل مالک نے معمولی تنازع پر بلال نامی نوجوان کو تشدد کر کے قتل کر دیا۔ بھٹائی نگر تھانے کی حدود میں ہوٹل پر کھانے کے بل کے تنازعہ پر جھگڑا ہوا، ہوٹل انتظامیہ کی فائرنگ سے ایک نوجوان موقع پر ہلاک، 3 نوجوان ڈنڈوں کے وار اور تشدد سے زخمی ہو گئے، ہوٹل مالک اور ملازمین بھی زخمی ہو گئے بعد ازاں پولیس نے ہوٹل مالک کو گرفتار کر لیا۔ نوجوان کی ہلاکت پر جسقم (جئے سندھ قومی محاذ) کے کارکنان نے دھرنا دیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق ایس ایس پی حیدرآباد نے اے ایس پی بلدیہ حسنین وارث کی سربراہی میں 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی، بعدازاں مقتول کے بھائی کی مدعیت میں ہوٹل مالک سمیت دیگر ملازمین کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

تفصیلات کے مطابق جھگڑے کے دوران فائرنگ، تشدد اور ڈنڈوں کے وار سے ایک نوجوان 30 سالہ بلال کاکا موقع پر ہلاک جبکہ ممتاز، امتیاز اور جانی زخمی ہو گئے جنہیں سول اسپتال لایا گیا۔ اے ایس پی بلدیہ حسنین وارث نے ڈیوٹی پر موجود 5 پولیس اہلکاروں کو غفلت پر معطل کر دیا ہے۔

اس حوالے سے ایس ایس پی حیدرآباد کا کہنا تھا کہ ہوٹل مالک کو حراست میں لے لیا گیا ہے، واردات کے وقت موقع پر موجود پولیس موبائل میں موجود اہلکاروں نے کارروائی کیوں نہیں کی اس حوالے سے تحقیقات کی جائیں گی۔

ذرائع نے بتایا کہ جھگڑا بل ادائیگی کے معاملے پر شروع ہوا کیونکہ ہوٹل مالک نے کھانے کا بہت زیادہ بل دیا تھا اور استفسار کرنے پر آپے سے باہر ہو گیا۔ ایس ایس پی امجد شیخ کا کہنا تھا کہ 5 نامزد ملزمان سمیت 10 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

اس واقعہ کے بعد سندھ کی مختلف قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور نوجوانوں کے گروپوں نے حیدرآباد اور جامشورو کے مختلف علاقوں میں گشت کرتے ہوئے پشتون برادری کے زیر انتظام چائے کی دکانیں اور ریستوران بند کر دیئے، دکانوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی جبکہ مارکیٹ ٹاور اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں ہوٹل بند کر دیئے گئے، اندرون سندھ کاروبار کرنے والے پختونوں پر جگہ جگہ تشدد کیا گیا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں نوجوان مختلف بازاروں میں مارچ کر کے ڈنڈوں کے زور پر دکانیں اور ہوٹل بند کروا رہے ہیں۔ یہ نوجوان پختون تاجروں کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ پختونوں اور افغانیوں کو یہاں پر کاروبار کرنے کا کوئی حق نہیں۔

جئے سندھ متحدہ محاذ کے چیئرمین شفیع برفت نے اپنے ٹویٹر پر اس واقعہ کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں مقیم پشتونوں کو فوری طور اپنے صوبوں کو واپس چلے جانا چاہیے کیونکہ ان کی موجودگی کے باعث یہاں کے حالات خراب ہو رہے ہیں۔

جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما مولانا راشد محمود سومرو کے ویڈیو بیان نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ انہوں نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کاروبار کا حق صرف سندھیوں کا ہے، ہم مشترکہ لائحہ عمل بنا کر یہاں سے پختونوں اور افغانیوں کو باہر نکالیں گے۔ مذہبی جماعت کے رہنما کی جانب سے اس بیان پر شدید رد عمل سامنے آیا۔ بعد میں جماعتی اور عوامی ردعمل کے بعد راشد محمود سومرو نے وضاحتی ویڈیو جاری کی جس میں اپنے سابقہ ویڈیو پیغام پر معافی بھی مانگ لی۔

خیرپور سندھ میں رہائش پذیر باجوڑ ماموند کے ایک تاجر نے بتایا کہ جب اس طرح کا حادثہ ہوتا ہے تو ایک شخص کے جرم پر ہم سب پختونوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے، ہم کسی طور اس واقعہ کی حمایت نہیں کرتے، بلال کاکا نامی نوجوان کے قتل کی بھی ہم مذمت کرتے ہیں مگر ایک شخص کی انتقامی کارروائی پر سندھ میں برسر روزگار ہزاروں لاکھوں پختونوں کو کیوں مارا پیٹا جا رہا ہے، ان کے کاروبار اور املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، ہم اس واقعہ سے مکمل بے خبر تھے مگر خیرپور میں جو کہ جائے وقوعہ حیدر آباد سے بہت دور ہے، یہاں بھی ہماری دکانیں بند کروا دی گئیں۔

اندرون سندھ پختون کمیونٹی کے ساتھ پیدا ہونے والی اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا کہ حیدرآباد میں ایک جوان کو قتل کیا گیا ہے اور اس کی آڑ میں ایک طبقہ پوری پشتون قوم کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے، ہم امن پسند قوم ہیں، مرنے والے نے اگر زبردستی بھی کسی سے کچھ لینے کی کوشش کی ہے تب بھی قتل کرنا کسی بھی طرح جائز نہیں، قانون کا احترام نہیں ہو گا تو معاشرے میں بگاڑ ہی ہو گا، سوشل میڈیا پر زیرگردش ویڈیو بھی خطرناک روایت ہو گی، پشتون محنت مزدوری کی غرض سے کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں آباد ہیں، پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ملک کے کسی بھی حصے میں رہنا ہر شہری کا حق ہے اور اس حق سے کسی کو بھی محروم نہیں رکھا جا سکتا، متعلقہ ادارے اور حکومت نوٹس لیں۔

یاد رہے کہ سندھ میں 50 لاکھ سے زائد پختون تجارت اور کاروبار کے سلسلے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے مقیم ہیں۔ 2018 میں بھی لسانی فسادات کی آڑ میں سندھ کے مختلف شہروں میں پختون تاجروں کو بے پناہ نقصان پہنچایا گیا تھا جس کے بعد ملکی سطح پر شدید احتجاج پر یہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔ اندرون سندھ زیادہ قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے غریب افراد محنت مزدوری کرتے ہیں، اس اہم ایشو کو بروقت حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لسانی عصبیت کو ہوا نہ مل سکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button