قید تنہائی اور نفسیاتی مسائل
فاکہہ قمر
انسانی جبلت ہے کہ وہ جب اداس یا زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے تو وہ تنہائی کو اپنا ساتھی بنا لیتا ہے اور اپنا بیشتر وقت اسی کی سنگت میں گزارنا پسند کرتا ہے۔ بعض اوقات انسان شور شرابے سے دور بھاگتے ہوئے تنہائی میں عافیت محسوس کرتا ہے۔
اکثر ہم بہت بڑے بڑے اور کامیاب اور نامور شخصیات کا جب انٹرویو یا حالات زندگی پڑھتے یا سنتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر مصروف اور سوشل زندگی گزارتے ہیں حتی کہ ان کے پاس محاورتاً نہیں حقیقتاً سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ دن بھر کی مصروفیت کے بعد رات کو اکیلا رہنا پسند کرتے ہیں۔ عام الفاظ میں وہ اپنی تنہائی میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔
یہ انسانی زندگی کا خاصہ ہے، اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے، ہم سب اس سب کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ کچھ تو زندگی سے مایوس، ناکام عشق کے باعث خود کو مصنوعی تنہائی کے خول میں جکڑ لیتے ہیں۔ آئے روز ہم یہ سب باتیں سنتے اور جانتے ہیں اور کبھی نہ کبھار خود بھی اس کا حصہ بنتے ہیں۔
تنہائی انسان کو وقتی سکون، خوشی اور مسرت کا احساس تو دلاتی ہے لیکن اگر ہم مسلسل اس کا حصہ بنتے رہیں تو اکثر ہم بہت سے نفسیاتی مسائل اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے ہماری زندگی مزید بدتر ہو کر رہ جاتی ہے۔
دیکھا جائے تو موجودہ دور میں نئی نسل میں جو ڈپریشن، فریسٹریشن، جذباتیت اور anxiety جیسے عنصر نمایاں ہیں تو اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ حد سے زیادہ تنہائی پسند ہو کر رہ گئے ہیں۔
معاشرہ ہمیشہ انسانوں سے تشکیل پاتا ہے اور انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ ایسے میں سماج میں رہنے والا انسان جب خود کو تنہائی میں مقید کر لے گا تو وہ گویا خود کو ایک قید خانہ میں بند کر کے اپنے اوپر خوشیاں حرام کر لے گا۔
ہر چیز ایک حد میں اور اعتدال میں اچھی لگتی ہے۔ ہر وہ چیز جو بظاہر فائدہ مند ہوتی ہے جب اس کو حد سے زیادہ استعمال کیا جائے تو اس کے مضر اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تنہائی میں محفوظ ہیں درحقیقت وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ جس تنہائی کو وہ اپنی آزادی سمجھتے ہیں وہ تو اصل میں ان کی قید کا پروانہ ہوتا ہے لیکن وہ اس سے ناآشنا ہوتے ہیں۔
ہر انسان خود کو بہتر طور پر جانتا ہے اور تجزیہ کر سکتا ہے۔ ایسے میں آپ ایک ٹھنڈی اور لمبی سانس لیں۔ خود کو پرسکون کریں، اپنی آنکھوں کو بند کریں اور خود سے سوال کریں کہ کیا آپ آزاد ہیں یا آپ بھی دوسروں کی مانند تنہائی کو اپنا سب کچھ جانتے ہوئے اس کی قید میں جڑے ہوئے ہیں؟ آپ کو آپ کے سوال کا جواب خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ آپ کو کسی ماہر نفسیات کے پاس جانا نہیں پڑے گا اور نہ ہی سکون آور ادویات استعمال کرنی پڑیں گی۔ آپ اپنا علاج خود زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں اگر آپ واقعی تنہائی کے مارے اور قید میں جکڑے ہوئے ہیں۔
بس اپنا انداز زندگی بدل لیں۔ یقین مانیں آپ کے سارے مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے۔ خود کو پہچانیں اور اپنے مقصد حیات پر نگاہ رکھیں، زندگی خود ہی سہل ہو جائے گی۔ پھر آپ کو تنہائی سے زیادہ اپنے مقصد اور روزمرہ کے معمولات زندگی میں سکون میسر آئے گا بشرطیکہ اگر آپ اس فارمولے کو سچے دل سے اپنائیں گے اور خود سے عہد کریں گے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آپ نے ہمت نہیں ہارنی، مایوسی کو اپنے پاس تک نہیں آنے دینا اور کبھی تنہائی کے خول میں سمٹنا نہیں ہے۔ انشاء اللہ افاقہ ہو گا۔