مریم: اس کی بند آنکھوں کی خوبصورت پلکوں پہ بھی اسے پیار نہیں آیا؟
سدرہ ایان
ہم ہر سال میلے سے قربانی کا جانور خرید کر لاتے ہیں اور پھر اسے قربان کر دیتے ہیں، بچپن میں تو ہم سب نے پڑھا ہے کہ کیسے اللہ کے حکم پر ابراہیم علیہ سلام اپنے بیٹے کو قربان کرنے چل پڑے اور پھر جب ابراہیم علیہ سلام نے اپنی آنکھیں کھول لیں تو ان کے بیٹے اسماعیل علیہ سلام کی جگہ ایک دنبہ قربان ہوا پڑا تھا۔ تب سے ہر سال مسلمان، جانوروں کو قربان کرتے ہیں۔
ابراہیم علیہ سلام کے واقعے کے بعد اللٌٰہ تعالیٰ نے کبھی کسی سے بچے کی قربانی نہیں مانگی، لیکن دین اسلام کی پیروی کرنے والے آج کل کے مسلمانوں میں سے ایک نے عید کے دوسرے دن ہی دوسرے مسلمان کی بچی کو ذبح کر کے قربان کر دیا اور یوں بغیر کسی مذہبی روایت کے چارسدہ سے تعلق رکھنے والے عبید للہ نے اپنی چار سالہ بچی کی قربانی دے دی۔
معمول کے مطابق پاپا عید سے ایک دن قبل بکرا خرید کر لے آئے اور پچھلے سال کی طرح اس بار بھی ہر کوئی دروازے تک دوڑتا ہوا گیا اور بکرے کی رسی ایک دوسرے سے کھینچ کر بکرے کا بہت اچھے سے استقبال کیا، پھر کوئی اس کے سامنے پانی رکھنے لگا کوئی چارہ بنانے لگا۔ اور معمول کے مطابق میں اپنی ہی جگہ بیٹھی رہی، نہ بکرے کو دیکھا نہ اس کو پیار کیا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ میں اسے نہ دیکھوں نہ اس کے قریب جاؤں، بہرحال بکرے کی رسی گیٹ سے باندھی گئی۔ رات ہوئی، سب اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو گئے لیکن اپنی عادت کے مطابق میں گیٹ دیکھنے گئی کہ کہیں کسی سے کھلا تو نہیں رہ گیا۔ تب اک لمحے کے لیے وہ بکرا میرے پاؤں سے سر ٹکرانے لگا اور آہستہ سے آواز نکالی، تب میرا دل دھک سے رہ گیا، مجھے نہ اس بکرے کو دیکھنا تھا نہ اسے چھونا تھا نہ مجھے اس کی آواز سننا تھی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اگر ایک لمحے کے لیے بھی میں نے اسے پیار کیا تو اگلے دن میں اسے قربان ہوتا نہیں دیکھ پاؤں گی۔ تو بس میں اسے نظر انداز کر کے کمرے میں چلی آئی۔
اگلے دن قربانی کے وقت میں جھاڑو لگا رہی تھی، میرا پاپا اور بھائی بکرے کو ذبح کر رہے تھے اور مجھے کل رات والا ایک لمحہ نہیں بھول پا رہی تھی، کیونکہ میں ہوں ہی ایسی، جانوروں سے بے پناہ محبت کرنے والی ان کا بہت خیال رکھنے والی، تب ہی کل رات والی ایک لمحے کی وہ آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی، جو بھی تھا جیسے بھی تھا پچھلی کئی عیدوں کی طرح اس بار بھی مجھ سے گوشت کا ایک ٹکرا بھی نہیں کھایا گیا، سب کھاتے رہے، میں موبائل پر ٹی این این ویب دیکھتی رہی، تب اچانک مجھے یہ سٹوری دیکھنے کو ملی کہ چارسدہ میں عیدِ قرباں کے دوسرے دن ایک چار سالہ مریم کو ذبح کر دیا گیا۔
تب سے میں یہی سوچتی رہی کہ قاتل اور مقتول کی فیملی اب سے شائد ہر سال جانور کو قربان کرتے وقت ایک چھوٹی سی ننھی جان کی قربانی بھولنے کی کوشش کرتے ہوئے بھی نہیں بھول پائیں گے، یہی سوچ سوچ کر میں پاگل ہوتی جا رہی ہوں کہ ہم کسی جانور، جسے ایک لمحے کے لیے قریب سے دیکھا، کو روتے ہوئے قربان کر رہے ہیں تو ایک انسان کیسے ایک چار سالہ بچی کے ساتھ ایسی گھناؤنی حرکت کر سکتا ہے؟
میں نے ایک لمحے کے لیے اس بچی کی لاش کی تصویر دیکھی تب سے لے کر اب تک میری طبیعت خراب ہے اور میں خود کو سنبھال نہیں پا رہی، معلوم نہیں اُس بچی کو اس حال تک پہنچانے والے کیسے سنبھل گئے ہوں گے؟
مجھے نہیں معلوم کہ اس گھر میں عید کے دن کون سی قیامت برپا ہوئی ہو گی لیکن وہ قیامت میں سوچ سکتی ہوں، اس کی ماں جو ایک سال سے امید سے تھی، بیٹی پیدا ہوئی اور پھر چار سال اس کے دن رات گنتے کٹے ہوں گے۔
مجھے واقعی سمجھ نہیں آ رہا کہ ہمارا معاشرہ، ہمارے پختون اور ہمارے آج کل کے خود کو مسلمان کہنے والے لوگ کس طرف جا رہے ہیں، عید سے دو ایک دن پہلے ہری پور میں بجلی کا بل جمع کرنے سے انکار پر ایک دوسرے پر گولیاں برسا دی گئیں، اب اسی ایک ہفتے میں ایک اور ذہنی صحت بگاڑنے والا واقعہ۔
مجھے سچ مچ ڈر لگنے لگا اب، خود کو پختون کہنے والوں سے، خود کو مسلمان کہنے والوں سے۔۔۔
کیونکہ جس نے ایسی حرکت کی شائد اس کے اپنے بچے نہیں ہوں گے تبھی تو اسے معصوم مریم کا احساس نہیں ہوا ہو گا، نہ اس کے ماں باپ کا، پتہ نہیں اس کی کیا حالت تھی، اس کے گلے پر چاقو رکھا، ایک پل کے لیے بھی اسے ڈر محسوس نہیں ہوا؟ رب سے بھی نہیں؟ مکافات عمل سے بھی نہیں؟ اس بچی کی معصومیت پر ترس بھی نہیں آیا؟
اگر وہ اس وقت زار و قطار رو رہی تھی کیا اسے رحم نہیں آیا تو خدا کے عذاب سے بھی خوف محسوس نہیں ہوا؟ اگر وہ بے ہوش تھی تو کیا اس کی بند آنکھوں کی خوبصورت پلکوں پہ بھی اسے پیار نہیں آیا؟
ایک پل کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ گھر میں پتہ نہیں کتنی آنکھیں دروازے پہ ٹکیں عائشہ کا انتظار کر رہی ہیں، شائد اس کی ماں نے اس کے لیے نئے کپڑے خریدے ہوں یا شائد اس کی ماں عید کی چھٹیوں کے بعد اسے سکول میں داخل کروانے والی ہو، یا شائد اس کی ماں اس کے منہ سے "امی” سننے کے لیے بے تاب ہو، شائد اس کی ماں اسے گلے لگانا چاہتی ہو، اور تب اک جیتی جاگت، ہنستی کھیلتی مریم کی جگہ انھیں ایک بے جان مریم دیکھنے کو ملے، معلوم نہیں اس کی ماں نے اور کیا کیا اس کے لیے سوچا ہو گا… معلوم نہیں اس کے لیے سب گھر والوں نے کتنے سپنے دیکھے ہوں گے۔۔۔!