خشک بہار
حدیبیہ افتخار
کہیں سنا تھا کہ جو پرندہ جتنی اونچی پرواز کرتا ہے، پرندوں کے شوقین اس ہی کے پر کاٹ دیتے ہیں، شاید لطف آتا ہو۔
آئیے آپ کو ایسے ہی ایک پرندے کی کہانی سناتی ہوں۔ میری ایک سہیلی ہے جو اپنے گھر کی کھرچن یعنی سب سے چھوٹی بیٹی ہے۔ اپنے گھر کی وہ پہلی لڑکی ہےجس نے یونیورسٹی سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔
اس کی تعلیم کی اہمیت کا یہ عالم تھا کہ امتحانات کے دوران اس کے گھر والے اس سے کسی ملکہ جیسا برتاؤ کرتے تھے۔
جب اچھے نمبروں سے پاس ہوتی تو اس کے ابو فخر سے سب کو بتاتے کہ ان کی لاڈلی نے تعلیمی میدان میں ایک اور معرکہ سر کر لیا ہے۔ یوں ہی لاڈ پیار میں تعلیم مکمل ہو گئی۔
مان یا گمان
مگر ہمارے سماج میں لڑکیاں چاہے کتنے ہی معرکے سر کر لیں، ان کے لئے آخری معرکہ گھر سے رخصتی ہی کا ہوتا ہے۔
جی ہاں! شادی کی بات ہو رہی ہے۔ میری سہیلی کے کئی رشتے آئے۔ سب رد کر دیئے گئے کہ خاندان سے باہر شادی نہیں کرنی۔
کچھ کو تو اس بناء پر خاطر میں ہی نہیں لایا گیا کہ اگر گھر کے مردوں سے مشورہ کیا جائے تو یقیناً انکار ہی ہو گا۔
دوسری جانب، اسے یہ مان یا شاید گمان تھا کہ اس کی زندگی کا اتنا اہم معاملہ اس کی مرضی کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔ یہ مان گھر والے ہی تو دیتے ہیں مگر شاید وہ اس جیسی لڑکیوں کے لئے گمان ہوتا ہے۔
خشک بہار
یوں جب خاندان سے ہی ایک رشتہ آیا تو میری دوست نے اسی مان کی رسی کو تھام رکھا تھا۔ مجھے بتایا کہ اس وقت وہ دوسرے کمرے میں دل ہی دل میں سوچتی رہی کہ اگر اس کی راۓ مانگی گئی تو سوچنے کے لئے کتنا وقت مانگے گی؟
مگر اس کے مان کی رسی ہاتھ سے اس وقت چھوٹی جب پتہ چلا کہ اس میدان میں معرکہ خود سے سر کرنے کا حق اسے حاصل نہیں۔ اور یوں قوس و قزح کے رنگوں والی مٹھائی اسے بے رنگ لگنے لگی۔
اسے یوں لگا جیسے اس کے دل کی بہار خشک ہو گئی ہو۔
میں نے پوچھا کہ کیا بہار بھی خشک ہوتی ہے؟ جواب دیا کہ اس کے دل کی بہا تو خشک ہی ہو چکی تھی۔ میری دوست نے زندگی کے سفر میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے، کچھ تکلیفیں سہیں تو کئی خشکیوں کو سرسبز وادیوں کا لبادہ اوڑھتے بھی دیکھا، کہیں خوشیاں ملیں تو سنبھالی نہ گئیں تو کہیں مان ایسے ٹوٹے کہ ذرے بھی نہ ملے۔
ان تجربات سے گزرتے ہوئے کہیں بلا کا صبر کیا تو کہیں کلیجہ منہ کو آیا کہ آخر کتنا صبر! کیا ہمارا اتنا بھی حق نہیں کہ ہمیں پوری زندگی کے لئے کسی کو سونپنے سے پہلے ہماری رائے مانگی جائے۔
شاید یہ قسمت کا لکھا تھا۔
مجھ میں کیا کمی تھی؟
اس سوال کا جواب میں نے کئی لڑکیوں کو ڈھونڈتے پایا کہ شاید کوئی کمی تھی کہ ایسے لوگوں کے حوالے کر دیا گیا جنہیں قدر ہی نہیں ہے، اس سے تو اچھا تھا اپنے والدین کے گھر ہوتی۔
مگر سوال کا جواب آج تک نہ مل سکا۔
تمہیں قبول ہے؟
کبھی کسی نکاح کی تقریب میں جانا ہوتا ہے تو وہاں دلہن سے ایجاب و قبول لیتے سنتی ہوں تو ہنسی نکل جاتی ہے اس منافقت پر۔ میری دوست کی طرح، لڑکیوں سے با لا ہی بالا گھر کی چار دیواری میں اول تو خاندان کی عزت کا واسطہ دے کر بات منوا لیتے ہیں۔ پھر لوگوں کا ہجوم بنا کے رسماً یہ سوال کرتے ہیں کہ اتنے لوگوں کے سامنے اب کیسے انکار کرے گی۔
شاید یہ فیصلے والدین اچھا سوچ کر کرتے ہوں مگر اس دل کو کون سمجھائے۔ اگر اس فیصلے میں مرضی شامل ہی نہ ہو تو اس سے اچھائی کی کتنی توقع ہو سکتی ہے؟
اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں مرضی شامل نہ ہو تو یوں لگتا ہے کہ آپ اس سرسبز پیڑ کی مانند ہو جاتے ہیں جس میں موسم بہار میں بھی ایک خشک پتہ اس کی خوبصورتی کو ماند کر دیتا ہے۔
جاتے جاتے ایک سوال: کیا آپ کی زندگی کی بہار بھی یوں کسی خزاں کی نذر ہوئی ہے؟
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائٹر اور بلاگر ہے۔