عبد المعید زبیر
پاکستان بننے سے لے کر اب تک مختلف پارٹیاں اور مختلف جرنیل مارشل لاء کی صورت میں برسرِ اقتدار رہے ہیں جن میں دو پارٹیاں ایسی ہیں کہ تقریباً عرصہ تیس چالیس سال سے انہیں مسلسل آزمایا جا رہا ہے۔ انہی جماعتوں کے کوئی ساٹھ ستر لوگ ہیں جو کبھی ایک پارٹی میں تو کبھی دوسری پارٹی میں۔ وہ جس طرف ہوں، ان کی حکومت بن جاتی ہے۔ بلکہ کچھ تو ایسے سدا بہار لوگ ہیں کہ ہر پارٹی اور ہر حکومت میں نظر آتے ہیں۔ وہ ہر الیکشن میں نئے نعروں کے ساتھ عوام کا رخ کرتے ہیں۔ ان کا اپنا کوئی نظریہ نہیں، اپنی کوئی سوچ نہیں بلکہ انہیں تو صرف ذاتی مفاد عزیز ہے کہ کس وقت کس پارٹی کا پلڑا بھاری ہونے والا ہے؟ بس اسی کے ہو لیتے ہیں۔ حکومت میں آنے والی ہر پارٹی کو بھی ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کہ وہی لوگ پھر اس حکومت کا دھڑن تختہ کرنے یا اسے بلیک میل کرنے کو بھی میسر ہوتے ہیں۔
یہ لوگ پارٹیوں سے اپنی وفاداریوں کی قیمت وصول لیتے ہیں، اور ہم عوام ان کو ہر دفعہ نئے نعرے پر ووٹ بھی دے رہے ہوتے ہیں اور وہ ہمارے ووٹوں سے ہی منتخب ہو کر اسمبلی کی تنخواہیں اور پروٹوکول بھی انجوائے کرتے ہیں افسوس کہ پھر انہی سے امید انقلاب رکھتے ہیں۔
چلے جانے والی ہر حکومت اگلی حکومت کے لیے کانٹے چھوڑ جاتی ہے جسے چنتے چنتے ہی وہ اپنی مدت پوری کر جاتی ہے۔ عوام کا انقلاب سر بازار رسوا ہو جاتا ہے پھر حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ہم پچھلی حکومتوں کو اچھا کہنے لگتے ہیں یہ معاملہ ہر دفعہ ہر حکومت کے ساتھ ہوتا ہے۔
ہر حکومت برسرِ اقتدار آنے سے قبل قوم کو خوب سبز باغ دکھاتی ہے بلکہ انہیں خوب ہواؤں میں اچھالتی ہے۔ مہنگائی، غربت، کرپشن اور معیشت کو کنٹرول کرنے کے دعوے کرتی ہے۔ مگر اقتدار میں آتے ہی سب کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں پہلوں کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ پچھلے تیس چالیس سالوں میں اگر کچھ اس وعدوں کو پورا ہوتے یا ان کی تکمیل ہوتے ہوتے دیکھی تو وہ دو ہزار اٹھارہ سے قبل کا کچھ عرصہ تھا جس میں قوم کو کچھ حوصلہ افزاء نتائج میسر ہوئے تھے۔ اگرچہ دودھ کے دھلے وہ بھی نہیں تھے۔ ہزار خامیوں کے باوجود قوم کے لیے کسی نہ کسی حد تک مفید تھے۔
مگر نواز شریف سے اوپر والوں کی ناراضی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا کہ انہوں نے پاکستان پر ایسا نیا اور ناکارہ چہرہ مسلط کر دیا، جس نے اقتدار میں آنے سے قبل سب سے زیادہ دعوے کیے، دوسروں پر چوری اور کرپشن کے الزامات لگائے۔ ہر کسی کو برا بھلا کہا مگر وہی شخص اور اس کی حکومت پاکستان قوم کے لیے عذاب بن گئی۔ پرانے منصوبوں کو روک کر نئے ایسے معاہدات کر گئی کہ قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ گئی۔
اس کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قوم کو امید ہونے لگی کہ شاید اب ہمارے حالات بدلیں گے۔ ہماری ترقی کی راہ میں جو رکاوٹ تھی، وہ دور ہو جائے گی۔ اب ہم پرانے پاکستان میں پہنچ جائیں گے۔ پیٹرول، گیس، آٹا، گھی اور دیگر اشیا ہمیں پرانی قیمت پر میسر ہوں گی۔ ڈالر نیچے آ جائے گا لیکن یہ کیا ہوا کہ ہر چیز پہلے سے بڑھ گئی، ڈالر دو سو کی حدود کراس کر گیا، پیٹرول، آٹے، گھی اور دیگر استعمال کی اشیاء غریب کی پہنچ سے مزید دور ہو گئیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ خدانخواستہ یہ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے۔ معیشت آؤٹ آف کنٹرول ہو رہی ہے اسٹاک مارکیٹ کریش کر رہی ہے۔ مہنگائی کا طوفان غریبوں کو کچل رہا ہے۔ مالدار حالات کو دیکھ کر انویسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں۔
ایسے نازک حالات میں اب ہمیں سیاست سیاست نہیں بلکہ ریاست ریاست کھیلنا ہو گا۔ یہ ریاست ہو گی تو ہم اور ہماری سیاست ہو گی اگر یوں ہی ہمیشہ کی طرح حالات کنٹرول کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر ملبہ پھینکتے رہے تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا بلکہ جس رفتار سے ہم املاک گروی رکھ رہے ہیں، ڈر ہے کہ ہمارا حال ویسا نہ ہو جائے جیسا ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کا کیا تھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں حالات کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے مل بیٹھ کر کوئی بیچ کی راہ نکالیں۔ قوم کی خاطر آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک میثاق جمہوریت کریں۔ ہر کوئی اپنی انفرادیت کو اجتماعیت میں بدلے کچھ بہتر کرنے کی جستجو کریں۔ پاکستان کو اس نازک صورت حال سے نکالیں ایسے میں اوپر والوں سے بھی گزارش ہے کہ آپ اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی حدود متعین کریں۔ ہر ادارے کو آزاد رہ کر اپنا فیصلہ خود کرنے دیں۔ اگر ادارے طاقت ور ہوں گے تو ریاست طاقت ور ہوگی لہذا سیاسی جماعت اور ادارے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے حال پر رحم کریں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے، اک دوسرے کا دست بازو بنیں۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو، اس کے اداروں اور یہاں کے باسیوں کو تا قیامت سلامت رکھے آمین