”بھوکے پیٹ تعلیم حاصل نہیں کی جا سکتی”
رانی عندلیب
درویش آباد کی رہائشی دلشاد نے گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث اپنے اور اپنے فوت شدہ دیور کے بچوں کو سرکاری سکول سے اٹھوا کر کام پر لگا دیا ہے، آج چھوٹے کباڑ جبکہ بڑے بچے شعبہ بازار میں سپیئرپارٹس والے کے ساتھ کام سیکھ رہے ہیں، بقول دلشاد جو انہیں 300 روپے ہفتہ دیتے ہیں۔
دلشاد کے خاوند ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں، گھر میں چار بچے، بیمار ساس، ایک بیوہ دیورانی اور اس کے تین بچے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں دلشاد نے بتایا کہ جوان دیور کی موت کے صدمے سے ساس چارپائی سے جا لگی، آج سے تقریباً چار سال پہلے تک گھر کا گزارا خاوند کی مزدوری سے ہو جاتا تھا لیکن اب ایک طرف گھر کے اخراجات تو دوسری طرف بیمار ساس کے علاج نے اس قابل نہیں چھوڑا کہ بچوں کے سکول کا خرچ برداشت کر سکیں، ”کیونکہ اپنے اور دیور کے بچے ملا کر سات بچے ہیں، سات بچوں کو سکول میں پڑھانا انتہائی مشکل کام ہے، شوہر ہی واحد سہارا ہے اس لیے بچوں کو سکول نہ بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔”
دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ ان کے نزدیک بچوں کے لیے تعلیم سے زیادہ صحت ضروری ہے، ”بھوکے پیٹ تعلیم حاصل نہیں کی جا سکتی۔”
اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹرز لاکت خان نے بتایا کہ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے اور لوگ اس کا رونا روتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اشیائے خوردونوش اور دوسری ضروریات زندگی کی چیزوں کی مانگ زیادہ ہے جبکہ ان کی سپلائی کم ہے، ”پاکستان جیسے حالات جس ملک کے ہوتے ہیں وہاں مہنگائی بڑھنے کے خدشات ہوتے ہیں، مہنگائی کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے ممالک بہت ساری چیزیں باہر سے درآمد کرتے ہیں جن میں کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر گھریلو سازوسامان، الیکٹرانک اشیاء اور دیگر چیزیں شامل ہیں، کسی ملک میں سیاسی بحران کی وجہ سے یہ تمام چیزیں متاثر ہوتی ہیں کیونکہ اسٹاک ایکسچینج میں ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے اور اس کا زیادہ اثر ملک کی معیشت پر پڑتا ہے، جو تاجر ہیں ان کے ساتھ باہر ممالک کے تاجر اس طرح معاہدے پر دستخط نہیں کرتے جس طرح ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ جس ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے وہاں کی معیشت بھی متاثر ہوتی ہے، اس کے باوجود متاثرہ ممالک کے تاجر کم مال مہنگے داموں یعنی ڈالر میں خرید لیتے ہیں اس طرح جب وہ اپنے ملک میں وہ چیزیں ڈالر کے حساب سے بیچتے ہیں تو عوام کو وہ مہنگی لگتی ہیں، تاجر نے بھی مہنگی لی ہوتی ہیں تو منافع پر بیچتے ہیں۔”
دوسری طرف رکشہ ڈرائیور سلیم بھی مہنگائی کو رو رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پٹرول روزانہ کی بنیاد پر مہنگا ہو رہا ہے، ایک طرف اشیائے خوردونوش اتنی مہنگی ہیں دوسری جانب پٹرول کی وجہ سے کرایوں میں بھی دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے گاہکوں میں کمی آ گئی ہے، ”بندہ جائے بھی تو کہاں کیونکہ ہر طرف مہنگائی کا طوفان ہے۔”
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ گاہک میں کمی کی وجہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہے، ”کل بھی دن بھر خوار ہونے کے بعد جب شام کو پٹرول اور رکشے کا خرچہ نکالا تو چھ سو روپے بچ گئے تھے، کریانے کی دکان پر کھڑا ہو کر راشن لینے لگا تو پاؤں تلے زمین کھسک گئی جب یہ سنا کہ گھی 680 روپے فی کلو ہے، اب اتنے پیسوں میں قرض کیسے چکاؤں گا، گھر کا خرچہ کیسے چلے گا، بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کا خیال کیسے رکھوں گا، پھر بجلی کا بل، گیس کا بل، پانی کا بل، یہ تمام اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے، حکومت جو غریب عوام کو روزانہ تھوڑا تھوڑا کر کے مار رہی ہے اس کو چاہیے کہ بس ایک ہی دفعہ تمام غریبوں کو زہر دے کر مار دے تاکہ ہم بھی روزانہ کی ٹینشن سے بچ سکیں، اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔”
سلیم نے مزید بتایا کہ رات کو یہ خیال سونے نہیں دیتا کہ کل صبح پھر کس کس چیز کی قیمت بڑھے گی اور پٹرول کا کیا ہو گا، ”آج کل اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا کوئی غریب عوام سے پوچھے، ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ان چیزوں کے نرخوں کا پتہ ہوتا ہے، اس وقت پشاور میں فی کلو گھی کی قیمت 680 روپے ہو گئی ہے، 20 کلوگرام آٹے کے تھیلے کی قیمت 1700 تک پہنچ چکی ہے، چاول 260 روپے کلو، چینی 95 روپے کلو ہو گئی ہے، گوشت کے نرخ مقرر نہیں لیکن کہیں پر بھی 650 روپے کلو سے کم قیمت پر دستیاب نہیں، غریب بندہ تو چکن اور گوشت کھا ہی نہیں سکتا، جبکہ چند دنوں بعد عید آنے والی ہے، ہم اپنا پیٹ نہیں پال سکتے، دو وقت کی روٹی بمشکل ملتی ہے، عید کا تو سوچ بھی نہیں سکتے، اس طرح غریب بچے احساس کمتری کا شکار ہو کر چور ڈاکو بن جاتے ہیں، اس سب کا ذمہ دار کون گا؟”