شمائلہ آفریدی
فیس بک کھول کر دیکھا کوئی ایم پی اے اپنے لوگوں، کارکنوں کے ساتھ کہیں کسی ٹیوب ویل کا افتتاح کر رہا تھا، پورے فیس بک میں ایم پی اے کا شکریہ ادا کرنے، ان کو خراج تحسین پیش کرنے کی پوسٹیں شیئر ہو رہی تھیں۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے، جب بھی ان خودغرض حکمرانوں کو پانچ سالوں میں کوئی ایک نیک کام کرنا نصیب ہوتا ہے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنی خودنمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اتنا کام نہیں کرتے جتنی خودنمائی، پورے سوشل میڈیا، پبلک مقامات، در و دیواروں پر تشہیر شروع ہو جاتی ہے۔
جب یہی خود غرض ظالم و جابر، سرمایہ دار سیاستدان پورے پانچ سال غریب قوم کے پسینے کو نچوڑ کر غرور تکبر کے ساتھ کوئی پروجیکٹس شروع کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسا کہ وہ ہم عوام پر کوئی بڑا احسان کر رہے ہوں۔ افسوس تو وہاں بھی ہوتا ہے جب سیاسی جماعت کے کارکنان ان ظالموں کو نیک فرشتے سمجھ کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہم عوام کے اندر بے عقلی، حماقت، نااندیشی اور کم فہمی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
پچھتر سالوں سے پاکستان کے ہر شعبہ، ہر ڈپارٹمنٹ میں بیٹھے چور، ڈاکو، لٹیرے ملکی وسائل، قومی دولت اور عوام کا پیسہ کس طرح بے دردی سے سمیٹ کر اپنی زندگیوں کو رنگینیوں سے بھرنے کیلئے فضولیات پر خرچ کرتے رہے ہیں لیکن اگر وہ عوام کے پیسوں سے ہی عوام کیلئے کوئی پروجیکٹس شروع کریں تو بے چارے عوام پر احسان جتا کر کہتے رہتے ہیں کہ ہم نے وہ کیا ہم نے یہ کیا جیسے کہ انھوں نے اپنے وسائل سے کئے ہوں، اور ہم عوام کو بھی ایسا ہی لگتا ہے۔
قوم کو لوٹنے والے یہ ڈاکو چور، اقتدار کے بھوکے کبھی یہ نہیں چاہتے کہ وہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کریں۔ ان کے دل میں نہ تو اللہ رسول کا خوف ہے نہ قبر یا بروز قیامت سوال جواب کی، ان کو قوم کی بھلائی سے کوئی غرض نہیں، اگر وہ تھوڑا بہت کام کرتے بھی ہیں تو عوام سے ہمدردی نہیں بلکہ ان کے ہر کام کے پیچھے ایک مقصد، لالچ چھپا ہوتا ہے۔ بے خبر عوام میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے، ان کے اعتماد میں اضافہ کرنے اور اپنی پوزیشن بہتر بنانے کیلئے ریاکاری سے کام لیتے رہتے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے سیاستدانوں پر مر مٹنے والے جیالے ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں، نوبت خون خرابے تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم میں اتنا شعور نہیں کہ اگر کوئی حکمران کوئی پروجیکٹ شروع کرے تو ہم اس کے سامنے کھڑے ہو کر حساب مانگیں، یہ نہ سوچیں کہ یہ ہم پر احسان کر رہا ہے بلکہ یہ سوچیں کہ یہ ہمارا پسینہ ہے، ہمارا حق ہے ہمیں پروجیکٹس کی تکمیل تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑنا، ہمارا منتخب لیڈر خود کتنا چور ہے اور ہمیں کتنا حصہ دے رہا ہے؟
جب یہ عہدیداران یا حکمران علاقے کا ایک دورہ بھی کرتے ہیں تو ہم ان کے آگے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں، خوش آمدید کے بینرز اٹھائے ہوئے، پھولوں کی پتیوں سے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ چور ڈاکو فوراً ہی سمجھ جاتے ہیں کہ یہ تو بڑے ہی بے وقوف لوگ ہیں، نہ تو حساب کتاب ہونا ہے نہ تو سوال جواب پوچھے جائیں گے۔ میٹھی میٹھی باتیں کر کے غائب ہو جاتے ہیں، عوام پر اتنا اثر کر جاتے ہیں کہ کئی دن ان کے استقبال کی خبریں آتی رہتی ہیں جس میں ہر عام و خاص، سوشل ایکٹویسٹ، صحافی حضرات بھی پیچھے نہیں رہتے ہیں۔
ہم عوام پھر بعد میں خود کو روتے پیٹتے ہیں کہ حکمرانوں نے کوئی کام نہیں کیا، دھوکہ دے کر غائب ہو گئے لیکن اس وقت جب فرشتہ رہنما افسران ہمارے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، ہم پر احسان جتلاتے ہیں تو ہماری بولتی ہی بند ہو جاتی ہے، ہم نہیں کرتے، ایسا لگتا ہے وہ کوئی دم پھونک کر ہمارے دل و دماغ کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم کبھی ظالم حکمرانوں سیاستدانوں کی چالوں کو سمجھ پائیں گے؟
نوٹ: یہ بلاگ ٹی این این کی جانب سے حال ہی میں پشاور میں بلاگرز کے لئے منعقدہ ٹریننگ کے دوران لکھا گیا تھا۔