جرائملائف سٹائل

خیبرپختونخوا کو خیرباد، سکھ برادری میں نئی روش

افتخار خان
پشاور کے علاقہ بٹہ تل میں دو سکھ تاجروں کے قتل کے واقعے نے اقلیتی بالخصوص سکھ برادری کے خوف و ہراس میں اضافہ کر دیا ہے۔ قتل ہونے والے ایک تاجر کے دو بھائی واقعے کے بعد پنجاب منتقل ہو گئے ہیں اور برادری کے مزید درجنوں افراد بھی خیبر پختونخوا سے رخت سفر باندھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
42 سالہ کنول جیت سنگھ اور 38 سالہ رنجیت سنگھ کو گزشتہ مہینے کی 15 تاریخ کو بٹہ تل بازار میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے اپنی ہی دکانات میں فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ بعد میں واقعے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کر لی تھی۔ دونوں تاجر پشاور کے محلہ جوگن شاہ کے رہائشی تھے۔

واقعے کے بعد رنجیت سنگھ کا 28 سالہ اور 25 سالہ بھائی خیبرپختونخوا چھوڑ کر پنجاب منتقل ہو گئے ہیں اور لاہور میں باقاعدہ ملازمت اختیار کر لی ہے۔ لاہور منتقل ہونے والے 28 سالہ نریندرا سنگھ کا کہنا ہے کہ بڑے بھائی کے قتل کے بعد ان کے والد نے دونوں چھوٹے بیٹوں کو فوراً لاہور منتقل ہونے کا کہا کیونکہ شائد وہ بہت ڈر گئے ہیں اور مزید غم برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ نریندرا سنگھ نے مزید بتایا کہ قتل ہونے والے رنجیت سنگھ کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں اور چھوٹا بیٹا ابھی صرف چار سال کا ہے۔ "وہ بچہ روزانہ اپنے والد کو یاد کرتا ہے اور اس کے آنے کا انتظار کرتا ہے، اب ہم اس کو کیسے سمجھائیں کہ بھائی کبھی نہ آنے کے لئے چلے گئے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے والد مزید غم برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہم دونوں بھائیوں کو وہاں سے نکال کر نسبتاؑ محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔”

نریندرا سنگھ کہتے ہیں کہ ان کا خاندان پہلے ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں آباد تھا۔ 15 سال پہلے ان کا خاندان پشاور آ گیا تو والد اور بڑے بھائی نے بٹہ تل بازار میں مصالحہ جات اور کریانہ کی دوکان کھول ڈالی، ”تیراہ میں بھی اور اب پشاور میں بھی ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بہت پیار اور محبت کے ساتھ رہ رہے تھے، ہم نے کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا پھر بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے بھائی رنجیت سنگھ اور کنول جیت سنگھ کو کس نے اور کیوں مارا؟” نریندرا سنگھ نے شکوے بھرے انداز میں کہا اور مزید بتایا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ رمضان کے مہینے میں اشیائے خورد و نوش پر خصوصی رعایت کا اعلان کر دیتے تھے۔

بٹہ تل بازار میں سکھ برادری کی 10 سے 12 تک دکانات ہیں اور دو ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد انہوں نے کچھ دنوں کے لئے اپنی دکانیں تو بند رکھی تھیں لیکن اب کھول لی ہیں۔ رنجیت سنگھ کی دکان پر اب ان کے والد بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ کنول جیت سنگھ کی دکان ان کے رشتہ داروں نے ختم کر کے سامان فروخت کر دیا ہے۔

2017 کی مردم شماری میں سکھ برادری کا الگ ڈیٹا تو مرتب نہیں کیا گیا ہے لیکن پشاور کے باباجی گورپال سنگھ کا دعویٰ ہے کہ خیبرپختونخوا میں 11 سو تک سکھ برادری کے خاندان آباد ہیں جن کی مجموعی آبادی 25 سے 30 ہزار تک ہے۔ خیبر پختونخوا کی سکھ برادری زیادہ تر پشاور میں آباد ہے۔ اس سے پہلے قبائلی ضلع کرم اور خیبر میں بھی سکھ برادری کے سینکڑوں خاندان آباد تھے لیکن شدت پسندی اور فوجی آپریشنز کی وجہ سے ان میں سے بھی زیادہ تر پشاور ہجرت کر کے مختلف گردواروں کے ارد گرد آباد ہو چکے ہیں لیکن اب یہاں پر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔
خیبر پختونخوا میں سکھ برادری کے ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ جنوری 2014 میں پیش آیا تھا جب چارسدہ کے علاقے تنگی میں میڈیکل سٹور کے مالک بھگوان سنگھ کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ مائنارٹی رائٹس فورم پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کا دعویٰ ہے کہ 2014 کے بعد اب تک خیبر پختونخوا میں سکھ برادری کے 24 افراد قتل کیے جا چکے ہیں اور قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے کسی ایک کیس میں بھی ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اقلیتوں میں سکھ چونکہ زیادہ آسانی سے پہچانے جاتے ہیں تو شائد اسی لئے ان کی ٹارگٹ کلنگ زیادہ ہو رہی ہے۔ رادیش سنگھ کہتے ہیں کہ سکھ برادری اب صوبہ خیبر پختونخوا کو اپنے لئے محفوظ نہیں سمجھتی اور دوسرے صوبوں اور بالخصوص پنجاب کا رخ کر رہی ہے۔

دو سکھ تاجروں کے حالیہ واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رادیش سنگھ نے کہا کہ داعش کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اب پولیس نے کیس تقریباً سردخانے میں ڈال دیا ہے اور تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں کر رہی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 2014 میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق جیلانی کے فیصلے کے مطابق اقلیتی برادری کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات میں قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو فوری ایکشن لینے کا کہا گیا ہے لیکن یہاں ایسے واقعات کے بعد پولیس کا فوری ایکشن بس یہاں تک محدود ہوتا ہے کہ جائے وقوعہ پہنچ کر لاشوں کو مردہ خانے پہنچائے اور پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالے کر دے۔ انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اقلیتوں کے تحفظ کے لئے سپیشل فورس کے قیام کا بھی کہا گیا تھا لیکن آٹھ سال گزرنے کے باوجود ہمیں ابھی ایسی کوئی فورس نظر نہیں آئی۔

دوسری جانب پشاور سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رہنما اور نیشنل پارٹی (عبدالمالک بلوچ) کے صوبائی فنانس سیکرٹری اشونی کمار کہتے ہیں کہ سپیشل ٹاسک فورس کے قیام کے حوالے سے اتنا ہوا ہے کہ اقلیتوں کی مذہبی عبادت گاہوں کے لئے انہی کی کمیونٹی سے کچھ جوانوں کو پولیس میں بھرتی کیا گیا ہے لیکن اس سے مسئلے حل نہیں ہوتے کیونکہ حالیہ ایک دو سالوں میں اقلیتوں پر حملوں میں بہت اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ٹارگٹ کلنگ کے شکار سکھ برادری کے حوالے سے حیران کن انکشاف:

اشونی کمار نے انکشاف کیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ٹارگٹ کلنک کا شکار ہونے والے 99 فیصد وہ سکھ افراد تھے جو قبائلی علاقاجات سے ہجرت کر کے پشاور یا دوسرے اضلاع آئے تھے۔ تمام کمیونٹی اس حوالے سے کافی پریشان اور الجھن کا شکار ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ بے گھر افراد ہی کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور واقعے کے دوسرے تیسرے دن ذمہ داری کبھی داعش اور کبھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان قبول کر لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ابھی تک اس حوالے سے کسی نتیجے تک نہیں پہنچے ہیں کہ سکھ برادری میں بھی مخصوص افراد کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

 

دہشت گردی کا شکار اقلیتوں کے لئے سیاستدان کیا کر رہے ہیں؟

اشونی کمار کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کو سکیورٹی دینے میں اگر ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب ہمارے سیاستدانوں نے بھی کبھی ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا ہے۔ دہشتگردی کا شکار بننے کے بعد ہماری کمیونٹی کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ، گورنر اور دوسرے سیاستدان ان کے پاس آئیں تو غم کی گھڑی میں شرکت کریں لیکن افسوس ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ابھی رنجیت سنگھ اور کنول جیت سنگھ کے قتل کے بعد بھی سیاستدانوں میں صرف مقامی رہنما ثمر بلور ان کے گھر گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہنے کو تو اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی شکل میں اقلیتوں کو نمائندگی حاصل ہے لیکن حقیقت میں وہ لوگ کبھی بھی اقلیتوں کے نمائندے نہیں ہوتے۔ اشونی کمار نے وضاحت کی "مخصوص نشستوں پر آنے والے ممبران صوبائی یا قومی اسمبلی سے جب ہم کوئی سخت بات کرتے ہیں اور حقوق مانگتے ہیں تو وہ لوگ ہمیں صاف طور پر کہہ دیتے ہیں کہ نہ تو وہ ہمارے ووٹوں سے اسمبلی آئے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہو گا۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے سیاستدانوں کو صرف اپنی پارٹی پالیسی پر چلنا ہوتا ہے اور وہ کبھی اپنی کمیونٹی کی فلاح کے لئے کوئی قابل قدر کام نہ کرتے ہیں نہ ہی کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشست پر موجود سکھ رکن صوبائی اسمبلی رنجیت سنگھ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر اسمبلی میں وہ اقلیتوں اور بالخصوص سکھ برادری کے حوالے سے آواز اٹھاتے ہیں۔ اسمبلی فلور پر ارکان جو کہتے ہیں وہ ان کے اپنے ذاتی مطالبات یا مسائل نہیں ہوتے بلکہ اپنی ہی کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
رنجیت سنگھ نے مزید بتایا کہ سکھ برادری کے حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے بعد بھی انہوں نے اسمبلی فلور پر کمیونٹی کے تحفظ کی بات کی اور پالیسیوں پر تنقید کی۔

رکن صوبائی اسمبلی نے یہ بھی کہا کہ آئی جی معظم شاہ انصاری نے انہیں یقین دھانی کروائی ہے کہ دوسرے شعبوں میں ہو نہ ہو لیکن پولیس فورس میں اقلیتوں کا پانچ فیصد کوٹہ ضرور مکمل کیا جائے گا اور فورس کے علاوہ اقلیتی نوجوانوں کو کلاس فور کی ملازمتیں بھی دی جائیں گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ صوبہ میں شمشان گھاٹ اور سکھ برادری کے لئے قبرستان کی کمی کے حوالے سے بھی اکثر اوقات آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور ابھی گزشتہ دنوں بجٹ تقریر میں اس ایشو پر بھی بات کی کہ جیسے صوبہ کے بچوں کے لئے تعلیم کارڈ جاری کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہے تو وہاں اقلیتوں کے لئے بھی اس میں کوٹہ رکھا جائیں۔ ” یہ تمام مسائل میرے یا کسی دوسرے اقلیتی ایم پی اے کے ذاتی نہیں ہے بلکہ کمیونٹی کے ہیں”

• پشاور کے گوردوارے محکمہ اوقاف نے کرائے پر دیئے ہیں:

اشونی کمار کا کہنا ہے کہ اقلیتوں اور بالخصوص سکھ برادری کے مسائل کے حل کے سلسلے میں حکومت اور سیاستدانوں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ 1980 سے بند دو گوردوارے ابھی تک عبادت کے لئے کھولے نہیں جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور صدر میں دونوں گوردوارے محکمہ اوقاف نے کرایہ پر دیئے ہیں جن میں اب لوگ رہ رہے ہیں اور ہماری کئی بار کوششوں کے باوجود وہ نہیں کھولے جا سکے۔
پشاور میں موجودہ وقت میں ہشتنگری اور ڈبگری گارڈن میں دو گوردوارے بھائی بیبا سنگھ اور بھائی جوگا سنگھ عبادت کے لئے کھلے ہیں۔ جبکہ دیگر جگہوں اور بالخصوص صدر کے اردگرد آباد سکھ برادری کے لوگ گھر کی چھتوں پر عبادت کرتے ہیں۔
"جس جگہ آپ کی جان کو تحفظ حاصل نہ ہو، جس جگہ آپ کو عبادت کی آزادی نہ ہو، جس جگہ آپ کو منافرت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو وہاں زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور پھر وہان سے لوگ نقل مکانی کرنا شروع ہو جاتے ہیں، ہم خیبر پختونخوا کی سکھ برادری میں بھی یہی روش دیکھ رہے ہیں کہ یہاں سے لاہور، پنڈی اور حسن ابدال منتقل ہو رہے ہیں۔” اشونی کمار نے بتایا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 2014 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حالات میں بہتری کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن حالات سلجھنے کی بجائے مزید الجھ رہے ہیں، ” اب ہم یہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو چھوڑیں اور ہمارے لئے اضافی سہولیات کو رہنے دیں بس ہمیں صرف آئین پاکستان کے مطابق ملک کے عام شہری کے حقوق ہی دیئے جائیں، ہمیں جینے کا حق، کاروبار کرنے کا حق، تعلیم اور صحت کا بنیادی حق دیا جائے۔”

سکھ اقلیتوں میں بھی اقلیت:

ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی اقلیتی برادری کی آبادی میں زیادہ تر عیسائی اور ہندو مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ سکھ تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والی خاتون سوشل ایکٹیویسٹ منجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ویسے تو تمام اقلیتی برادری کو آئین پاکستان کے مطابق حقوق حاصل نہیں ہیں لیکن اس ضمن میں سکھ برادری کو اور بھی مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سکالرشپ یا جابز کوٹہ میں ہمیشہ ہی عیسائی اور ہندو برادری کے لوگ منتخب کیے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ اگر حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی منصوبہ شروع کیا جاتا ہے تو اس میں بھی سکھوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
منجیت نے کہا کہ اقلیتوں میں بھی اقلیت ہونا ہی بڑی وجہ ہے کہ سکھ برادری ہر جگہ پر نظرانداز ہے، خواہ وہ سیاستدانوں کی جانب سے ہو، میڈیا کی جانب سے ہو اور یا سکیورٹی اداروں کی جانب سے۔
"ہمارے دو نوجوان دن دیہاڑے سرعام قتل کئے گئے، سیاستدانوں کی جانب سے مذمتی بیان کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا، میڈیا پر چند دن سرخیاں چلیں اور کالعدم تنظیم کی جانب سے واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری بھی ختم ہو گئی” منجیت سنگھ نے وضاحت کی۔

اس حوالے سے ایم پی اے رنجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ کوٹہ پر عمل درآمد نہ ہونا صرف سکھ برادری کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام اقلیتوں کا ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ اداروں میں ابھی تک پانچ فیصد ملازمتوں پر اقلیتوں کو نہیں لیا جا سکا۔
خیبرپختونخوا میں سکھ برادری کے علاوہ دیگر مذہبی اور مسلکی اقلیتوں پر مختلف دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم داعش قبول کرتی آ رہی ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ خطے میں اس تنظیم نے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ تاہم خیبرپختونخوا کے آئی جی معظم جاہ انصاری نے یہ تاثر رد کیا ہے اور کہا ہے کہ چند ایک واقعات کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ داعش یہاں ایک تنظیم کی شکل میں موجود ہے بلکہ چند ایک دہشت گرد ہیں جو ان کے ساتھ مل گئے ہیں اور امید ہے کہ ان کو بھی جلد ختم کر دیا جائے گا۔
دہشت گرد تنظیم کی شکل میں ہوں یا انفرادی حیثیت سے کاروائی کریں، داعش ہو یا تحریک طالبان لیکن یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اقلیتوں بالخصوص سکھ برادری میں اس حوالے سے کافی خوف پھیل چکا ہے اور بہت سے گھرانے بٹہ تل میں قتل کئے گئے رنجیت سنگھ کے بھائیوں کی طرح صوبہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button