”پولیس روکے تو سکھ جوڑے کے پاس شواہد نہیں ہوتے کہ وہ آپس میں میاں بیوی ہیں”
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان بننے کے بعد اب تک خیبر پختونخوا میں سکھوں کی شادیوں کیلئے کوئی قانون وضع نہیں کیا گیا جس کے باعث شادی شُدہ جوڑوں کو قانونی، سماجی مسائل خصوصاً شادی تحلیل کرتے وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صوبے کی سکھ برادری میں اس قانون کی عدم موجودگی پر بے چینی پائی جاتی ہے۔
پشاور میں مقیم قبائلی اضلاع کے سکھوں کے نمائندے 26 سالہ باباجی گوروپال سنگھ نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سکھوں کی شادیوں کیلئے حکومتی سطح پر کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے سکھوں کو سماجی، معاشرتی اور قانونی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
گوروپال کا کہنا تھا کہ ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ صوبہ پنجاب کی طرح خیبر پختونخوا میں سکھ میرج ایکٹ کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ مستقبل میں میاں بیوی کے درمیان پیش آنے والے گھریلو مسائل قانونی طور پر حل کئے جا سکیں۔
انہوں نے کہا "قانون کی عدم موجودگی میں اگر کسی جوڑے کے درمیان علیحدگی ہو جائے تو خاتون کیلئے حق مہر یا جہیز کیلئے کوئی قانونی راستہ موجود ہوتا ہے نہ وہ عدالت میں اپنے حق کیلئے مقدمہ کر سکتی ہے۔”
گوروپال نے بتایا کہ موجودہ صورتحال میں سکھ جوڑے کے پاس کوئی قانونی شواہد موجود نہیں ہوتے تاکہ یہ بات یقینی رہے کہ وہ آپس میں میاں بیوی ہیں۔ ان کے مطابق جب شادی شُدہ جوڑا شادی کے بعد ہنی مون یا پکنک پر جاتا ہے تو اکثر پولیس یا دیگر سیکورٹی ادارے انہیں روک کر آپسی رشتے کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گوروپال کے مطابق "ماتھے پر بندی یا سندور سے اس بات کا باور نہیں کرایا جا سکتا کہ ہاں یہ دونوں آپس میں میاں بیوی ہیں کیونکہ یہ تو ثبوت نہیں ہے، یہ تو ہر قسم کے لوگ کر سکتے ہیں، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ سکھ میرج ایکٹ لایا جائے۔”
قانون کی عدم موجودگی میں سکھوں کی شادی کیسے ہوتی ہے؟
پشاور سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم اقلیتی رائٹس فورم کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کا کہنا تھا کہ سکھ مذہب میں شادی کا طریقہ کار نہایت سادہ ہے لیکن اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، جس طرح اسلام میں ایک شخص قرآن پاک کی آیات پڑھ کر نکاح پڑھوا دیتے ہیں بالکل اسی طرح مذہبی کتاب گرو گرنتھ کے تحت نکاح پڑھایا جاتا ہے، جس کے بعد گرنتی کے لیٹر پیڈ پر چار گواہان دستخط کرتے ہیں اور تصدیق شدہ دستاویزات کو نادرا میں جمع کرنے پر جوڑے کو شناختی کارڈ مہیا کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سکھ میرج ایکٹ کی عدم موجودگی سے سکھ برادری اپنی ازدواجی اور سماجی زندگی کے حوالے سے فکر مند ہے۔ گوروپال کے مطابق جب یہ قانون بن جائے تو مسلمانوں کی طرح ہمیں بھی ایک کمپیوٹرائزڈ اور قانونی نکاح نامہ ملے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس قانون کی عدم موجودگی میں کتنے خاندانوں کے درمیان علیحدگی ہوئی اور کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بتایا کہ اب تک کسی بھی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا واقعہ سامنے نہیں آٰیا لیکن سکھ میرج ایکٹ کا قیام مستقبل میں آنے والے مسائل کے حل کیلئے ایک راستہ ہو گا۔
رادیش کا کہنا تھا کہ جب 3 جولائی 2020 کو شیخوپورہ ٹرین کا حادثہ ہوا تو اس میں جاں بحق 21 افراد کا تعلق پشاور سکھ برادری سے تھا جن کی بیویوں کی گوردوارے میں گورو گرنت کی تعلیمات کے تحت اپنی برادری کے دیگر افراد کے ساتھ شادیاں کرا دی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مذہب میں طلاق کا کوئی لفظ ہی موجود نہیں ہے اور نہ اس طرح کا کوئی واقعہ سامنے آیا ہے لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف آ بھی جائے تو وہ گھر کی سطح پر حل کیا جاتا ہے، اگر گھر کی سطح پر مسئلہ حل نہ ہو تو گوردوارے میں اس کا حل نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن خدانخواستہ معاملہ یہاں بھی حل نہ ہوا تو پھر ہمارے لئے قانونی راستہ کیا ہو گا؟
دنیا بھر میں پاکستان کا پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں پر 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں سکھ میرج انند کاراج ایکٹ 2018 کے نام سے قانون منظور کیا گیا تھا لیکن رادیش سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس کے لئے رولز ترتیب نہیں دیئے، اس لئے ہم نئی حکومت سے رولز بنانے اور قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
رادیش نے بتایا کہ ان کے پاس اپنی برادری کی مصدقہ تعداد موجود نہیں کیونکہ سال 2017 کی مردم شماری میں ان کی برادری کیلئے کوئی خانہ مختص نہیں کیا گیا تھا جس پر ہم نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی اور عدالت نے اگلی مردم شماری میں سکھوں کیلئے الگ خانہ رکھنے کا حکم دیا۔ ان کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا میں تقریباً 15 ہزار سکھ افراد رہتے ہیں۔
پاکستان میں سکھوں کی اعداد و شمار رکھنے والی غیرسرکاری تنظیم سکھ ریسورسز اینڈ سٹڈی سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 50 ہزار سکھ افراد رہتے ہیں جبکہ نادرا کے پاس 6،146 افراد رجسٹرڈ ہیں۔
سکھ میریج ایکٹ کی قیام پر خیبر پختونخوا حکومت کا ردعمل
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے میرج ایکٹ کا قیام ضروری سمجھتے ہوئے کہا کہ حکومت سکھ میرج ایکٹ بنانے کیلئے تیار ہے جس کے لئے کچھ عرصہ قبل سکھ برادری کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت بھی ہوئی تھی جس میں انہیں بتایا گیا تھا کہ پنجاب میں پاس کردہ سکھ میرج انند کاراج ایکٹ کو اپنی برادری سے متفقہ طور پر منظور کروا کر ہمیں بجھوائیں جس پر کارروائی شروع کی جائے گی۔
وزیرزادہ نے بتایا "یہ قانون سب کیلئے ضروری ہے، دیکھیں اب اگر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا مسئلہ پیش آ جائے تو قانون کی عدم موجودگی میں وہ عدالت سے کیسے انصاف مانگیں گے، اس کے علاوہ ملک یا ملک سے باہر جانے والے جوڑے بغیر نکاح نامہ کیسے جائیں گے، تو میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے۔”
انہوں نے صوبے میں قانون بننے کے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سکھ کمیونٹی سے یہ تجویز کردہ قانون پاس ہو جائے تو اسے لاء ڈیپارٹمنٹ کو بھجوایا جائے گا جس کے بعد وزیر اعلیٰ کے دستخط سے یہی بل اسمبلی میں پیش ہو گا، اسمبلی سے متفقہ طور پر پاس ہونے کے بعد لوکل گورنمنٹ کو بھجوا کر رولز ترتیب دیئے جائیں گے جس کے بعد یہ قانون عملی ہو جائے گا۔