سوات کے آڑو مرجھا گئے
عارف حیات
یہ ایک حسین اتفاق ہے کہ گرمیوں کے موسم میں جس کسی کا بھی خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی طرف جانے کا ارادہ بن جائے تو اُس سے واپسی پر آڑو ساتھ لانے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ بھلا آڑو کی فرمائش کیوں نہ کی جائے، اتنے موٹے، تازہ اور رس بھرے آڑو کھانے کو کون منع کر سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں بھی آڑو کی پیداوار ہوتی ہے مگر سوات کے آڑو کو خاص مقام حاصل ہے۔ اندازے کے مطابق سوات میں ایک درجن سے زائد اقسام کے آڑو پیدا ہوتے ہیں جس کی مجموعی پیداوار چار لاکھ ٹن سے زائد ہے۔
سال کے پانچ مہینوں میں آڑو کا خیبر پختونخوا کے مارکیٹ میں انٹری ہوتی ہے، مئی سے لے کر ستمبر تک سوات سے پشاور تک آڑو کی بھری گاڑیاں سڑکوں پر دیکھی جاتی ہیں۔ پہچان بھی ایسی ہوتی ہے کہ دور سے دیکھتے ہی بے اختیار منہ سے نکل جاتا ہے کہ ”ھلکہ د سوات شلتالان راغلل” یعنی سوات کے آڑو پہنچ گئے ہیں۔
رواں سیزن میں آڑو کے ہرے بھرے باغات پر موسمیاتی تبدیلی کے باعث آسیب زدہ ہو گئے۔ اب موٹے وجود سے جانے جانے والے آڑو کی جسامت کم ہو کر رہ گئی، تازگی کا احساس بھی کم ہو کر رہ گیا ہے جبکہ رنگت میں بھی سانولے ہو گئے ہیں، مُرجھائے جانے سے میٹھے رس کا ذائقہ بھی پھیکا پڑ گیا ہے۔
سوات کے مقامی باغبانوں کو رواں سال آڑو کے چھوٹے سائز اور کم پیداوار نے نقصان سے دوچار کر دیا ہے، سوات میں موسمیاتی تبدیلی کے بدلتے تیور نے پیداوار پر بھی ضرب لگا دی ہے۔
“باغات تک پانی کی رسائی میں دشواریوں کی وجہ سے آڑو کی پیداوار پر خراب اثرات پڑے ہیں۔” باغبان نے بتایا۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ماہر زراعت ڈاکٹر ارشد خان کہتے ہیں کہ مئی سے لے کر ستمبر تک آڑو کے پانچ اسٹاک تیار ہوتے ہیں، ماہ جون میں دوسرے اسٹاک میں ابھی تک باغبانوں کو نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آڑو مرجھائے ہوئے ہیں اور بعض درختوں میں آڑو کے سائز چھوٹے ہی رہ گئے ہیں جبکہ بیشتر آڑو پکنے سے قبل خراب ہو گئے ہیں۔
بڑی تعداد میں آڑو کے خراب ہونے سے باغبانوں میں تشویش کی لہر دوڑی ہے۔ باغبان شیرین خان نے ان تمام تر صورتحال پر بتایا کہ رواں سال پورے سوات میں ہر طرف آڑو کے باغات لگائے ہیں، مگر افسوس ہے کہ پیداوار بڑھ نہیں سکی۔
سوات کے سیب اور ناشپاتی بھی اپنی شہرت رکھتے ہیں مگر باغات تک پانی کی رسائی ممکن نہ ہونے کے باعث دیگر پھلوں کے باغات ختم ہو گئے ہیں۔ اب سوات میں زیادہ تر آڑو کے باغات نے دیگر پھلوں کی جگہ لی ہے۔
صحافی محمد عثمان جو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ سوات میں بہتر آبپاشی نظام متعارف نہ کروایا گیا تو صرف آڑو نہیں بلکہ دیگر پھل اور سبزیوں کی پیداوار میں بھی کمی کا خدشہ ہے۔ دریائے سوات سے منسلک آبپاشی نظام میں جدت لانے سے ہی سوات کے آڑو کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔