خیبر پختونخوا: تنخواہ کم سے کم اجرت سے کم، اور بروقت ملتی بھی نہیں!
شاہد خان
ملک میں مزدور کی کم سے کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے مقرر ہے تاہم خیبر پختونخوا کے بیشتر نجی اداروں اور تنظیموں میں کام کرنے والے ملازمین کو 10 سے 18 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ یا اجرت دی جا رہی ہے۔ صوبے میں قائم برے بڑے نام والی کمپنیوں، کارخانوں اور تنظیموں میں کام کرنے والے ملازمین اور مزدوروں کو کم سے کم اجرت کا 50 فیصد بھی نہیں ملتا جس کی وجہ سے یہ متوسط طبقہ فاقہ کشی پر مجبور ہے۔
دو تین روز قبل ایک نجی ادارے میں کام کرنے والے ڈرائیور سردار علی نے اپنی پریشانی اور مشکلات کے حوالے سے بتایا کہ اسے ماہانہ 18 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے لیکن پچھلے 6 سال سے تنخواہ کبھی ٹائم پر ادا نہیں کی گئی، کبھی 12 تاریخ کو تنخواہ دی جاتی ہے کبھی 17 تو کبھی 20 تاریخ کے بعد تنخواہ مل جاتی ہے۔
بڈھ بیر کے علاقے سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ ڈرائیور کافی غصے میں تھے اور اپنے ادارے کے مالکان کو بددعائیں دے رہے تھے، وجہ پوچھنے پر بتایا کہ انہیں مئی کی تنخواہ ابھی 14 جون کو ملی، ”تنخواہ اتنی لیٹ ہو گئی کہ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ جو قرضہ لیا ہے ان لوگوں کو دوں، بچوں کے لئے نوٹ بکس خریدوں یا پھر گھر کے لئے راشن؟”
مزید بتایا کہ اگر یہ تنخواہ تھوڑی زیادہ ہوتی اور بروقت ملتی تو بجلی کا بل، گیس کا بل اور راشن سمیت سب کام بھی بجٹ کے مطابق ٹھیک اور بروقت ہوتے۔
سردار علی کے مطابق گزشتہ دو سال سے بدترین مہنگائی کی وجہ سے گھر کا چلانا مشکل ہو گیا ہے، تنخواہ 18 ہزار روپے ماہانہ ہے لیکن اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اس تنخواہ سے گھر کے لئے آٹا، چینی، گھی، چاول، چائے، دال اور دیگر اشیاء خوردونوش خریدنا اب ناممکن ہو گیا ہے، یہ تو شکر ہے کہ گھر اپنا ہے اور زیادہ تر سبزیاں بھی گاؤں میں خود اگا لیتا ہوں۔
پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈیوٹی کے لئے موٹرسائیکل پر پشاور آتے ہیں، ”پہلے 100 روپے کا پٹرول ڈلواتا تھا جس سے دو دن پشاور آتا جاتا تھا اب 150 روپے کا پٹرول روزانہ ڈلوانا پڑتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ 20 کلو آٹے کا تھیلا 800 روپے میں ملے گا، خیبر پختونخوا کو آٹا سپلائی کرنے کے لئے ٹرک تو بھجوائے جاتے ہیں لیکن وہ کافی نہیں ہوتے کیونکہ گنجان آباد علاقے کے لئے ایک ٹرک انتہائی کم ہے اوپر سے یوٹیلیٹی اسٹورز کو بھی آٹے کی سپلائی بند کر دی گئی ہے، سٹور انتظامیہ کہتی ہے کہ اب آٹا ٹرک کے ذریعے علاقوں کو بھجوایا جاتا ہے اس لئے سٹورز کو نہیں دیا جاتا، اب بندہ آٹے کے لئے ٹرک کے پیچھے کہاں کہاں خوار پھرتا رہے؟
چاچا سردار علی کی طرح پشاور میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جن کو ایک طرف اجرت پوری نہیں ملتی اور دوسری جانب مہنگائی کے طوفان نے ان کا جینا مزید مشکل بنا دیا ہے۔
رواں سال اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اس وقت پشاور کی مارکیٹوں میں بھی فی کلو قیمت 600 روپے سے تجاوز کر گئی ہے، 20 کلوگرام آٹے کے تھیلے کی قیمت 1700 تک پہنچ چکی ہے، سلہ چاول 250 روپے کلو، چینی 95 روپے کلو، چائے کی پتی 1200 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے، اس کے لئے گوشت کا کوئی خاص نرخ مقرر نہیں لیکن کہیں پر بھی 650 روپے فی کلو سے کم قیمت پر گوشت دستیاب نہیں، رمضان المبارک کے بعد سے چکن اور مرغی کے انڈوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، ژندہ چکن کی قیمت فی کلو 316 روپے جبکہ فی درجن انڈوں کی قیمت 180 روپے ہے۔