رضیہ محسود
حال ہی میں پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ یوں تو یہ سلسلہ ریاست اور ٹی ٹی پی کے درمیان لگ بھگ ایک سال سے شروع ہے لیکن اس میں تیزی گزشتہ کچھ عرصے سے آئی ہے۔
مذاکرات کے اس سلسلے میں ایک 35 رکنی جرگہ نے، جس میں قبائلی مشران اور طالبان کے رشتے دار اور حکومت پاکستان کے ممبران شامل تھے اور مذاکرتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اور خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اس کمیٹی کے واحد غیرقبائلی رکن تھے، کابل جا کر افغان حکومت کی ثالثی میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کئے جن میں باقی مطالبات کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع کی خیبر پختونخوا میں انضمام کی مخالفت اور ایکس فاٹا کی سابقہ حیثیت کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے ایکس فاٹا کی سابقہ حیثیت وہ سرخ لکیر ہے جس پر وہ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، جس پر جرگہ ممبران نے کچھ وقت مانگا اور کہا کہ مرجر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے اور یہ پارلیمنٹ سے ہی دو تہائی اکثریت سے پاس ہو کر واپس ہو سکتا ہے اور یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے جرگہ ممبران کو کچھ وقت دیا اور غیرمعینہ مدت کے لئے فائر بندی کی گئی۔
مسائل کا حل باہمی بات چیت سے ہی کیا جا سکتا ہے لیکن ان مذاکرات کو اگر دیکھا جائے تو ان میں خواتین کو یکسر نظر انداز کیا گیا، وہ خواتین جو آپریشن ضرب عصب اور راہ نجات کے دوران در بدر ہوئیں، جنہوں نے اپنے بچوں اپنے پیاروں کو کھویا، جن کے بچے شیہد خاوند لاپتہ ہوئے، جن کے والد مارے گئے، جنہوں نے خیموں میں وقت گزارا، شدید بیماریوں کا سامنا کیا، جن کے بچے تعلیم سے محروم رہے لیکن انہوں نے جب واپس اپنے اپنے علاقوں کا رخ کیا تو وہاں پر ایک اور بڑی آفت لینڈ مائنز کی صورت میں خوش آمدید کہتے ہوئے ان کے بچوں ان کے مال مویشی اور بذات خود ان کو معذور یا شہید کرتی رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر، تعلیمی ادارے غیرفعال، روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر، یوں کہا جا سکتا ہے کہ قبائلی خواتین کو انسان سمجھا ہی نہیں گیا۔ دوران ڈلیوری ان کی اموات، ان کے بچوں کی اموات، ہر لحاظ سے یہ خواتین محروم جبکہ ان کی آواز سننے والا یا ان کے لئے کام کرنے والا کوئی نہیں۔
مرج اضلاع کے لئے فنڈز آئے یا خواتین کے نام پر نیشنل یا انٹرنیشنل اداروں نے کام کیا یا سامان تقسیم کیا بھی تو اس پر مخصوص طبقہ قابض رہا اور غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کے نام آنے والے فنڈز ہڑپ کرتا رہا اور جن کے نام یہ فنڈز آتے رہے ان کو خبر تک نہ ہوئی۔
جب 2018 میں فاٹا انضمام ہوا تو نوجوانوں اور خواتین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انضمام کی وجہ سے صوبائی اسمبلی میں سیٹس ملے، نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہونے لگے اور خواتین کے لئے بھی روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی امید نظر آنے لگی، قبائلی اضلاع میں پولیس سسٹم آیا، عدالتی نظام آیا، ڈی سی اور اے سی آئے، ریسکیو 1122 آیا۔ اگرچہ یہ ادارے اس طرح فعال نہیں جیسے خیبر پختونخوا کے باقی شہروں میں ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان کی کارکردگی میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔
اب جب انضمام بہتری کی جانب گامزن ہے تو اس انضمام کی دوبارہ واپسی کا مطالبہ ان اضلاع کو دوبارہ پسماندگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے کیونکہ ہماری ریاست یا حکومت پاکستان اگر طالبان کے اس مطالبے پر رضامندی ظاہر کرتی ہے تو سب سے پہلے قبائلی اضلاع کے عوام اور خاص کر خواتین کی رضامندی لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آج قبائلی اضلاع کی خواتین اپنے وہ تمام حقوق لینا چاہتی ہیں جو اسلام نے ان کو دیئے ہیں، اگر اسلام آباد یا پاکستان کے باقی شہروں میں خواتین کو بنیادی سہولیات میسر ہیں تو قبائلی اضلاع کی خواتین کو کیوں نہیں؟
پس امن مذاکرات میں قبائلی اضلاع کی خواتین کو یکسر نظر انداز کرنا اور ان کی رائے شامل نہ کرنا ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کی سب سے بڑی غلطی ہو گی اور خواتین کی رائے کے بغیر جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ دیرپا اور پائیدار نہیں ہو گا اور نہ مستقل امن کے لیے راہ ہموار ہو سکے گی۔
انضمام کا فیصلہ واپس لینے سے قبائلی اضلاع کی عوام میں انتشار پھیلے گا اور یہ مخصوص ٹولے کا فیصلہ ہی تصور کیا جائے گا جس کامطلب قبائلی علاقوں کے عوام اور خاص کر خواتین کی قربانیوں اور مشکلات کو نظر انداز کر کے دوبارہ ان کو اندھیرے اور برٹش کے رائج کردہ کالے قانون چالیس ایف سی آر کی طرف دھکیلنا ہے جو کہ مخصوص مفاد پرست اور مراعات یافتہ ٹولے کے علاوہ قبائلی اضلاع کے عوام کیلئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو گا۔