12 جون اور کم عمری میں اپنا پسینہ بہاتا ہمارا خون
حنا رؤف
آج بارہ جون ہے اور بچوں کی مشقت کے خلاف دنیا بھر میں آگاہی پھیلانے کے لیے یہ دن عالمی سطح پر منایا جا رہا ہے۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایک سو ساٹھ ملین یعنی سولہ کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ ان میں ستائیس ملین یعنی دو کروڑ ستائیس لاکھ بڑے اور اسی ملین بچے خطرناک جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن ایک سو بیاسی میں چائلڈ لیبر کی بدترین شکلوں کی ممانعت اور خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان کے اکثر علاقوں میں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے مثلاً بھٹہ خشتوں، کارخانوں، ہوٹلوں، سڑکوں اور دکانوں میں بچوں سے جبری کام لیا جاتا ہے اور معمولی اجرت دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کام کی ان جگہوں پر انہیں جنسی استحصال کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے جو کہ عام انسان کی سوچ سے بالاتر ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔
اس کے عللاوہ کم عمر بچوں کو ناجائز سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے؛ مثلاً بھیک منگوانا اور بھکاری مافیا کے لیے کام کرنا، سمگلنگ، ڈرگ مافیا، منشیات اور الکوحل کی تیاری میں انہیں زبردستی استعمال اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ یہ سب ناقابل معافی جرائم ہیں۔
قانون میں اٹھارہ سال یا اس سے کم عمر کو بچہ کہا گیا ہے۔ بچوں کی خرید و فروخت، سمگلنگ، قرض کے عوض بچوں کو دینے جیسے عوامل، ہر وہ کام جو بچوں کی صحت و حفاظت اور اخلاقیات کو نقصان پہنچائے، وہ چائلڈ لیبر کی بدترین شکل ہے، ہم سب کو مل کر اس کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہو گا۔
بچوں کے تحفظ کے لیے جو ادارے پاکستان میں کام کر رہے ہیں ان میں ایف آئی اے (فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی)، آئی بی (انٹیلی جنس بیورو)، پولیس، کورٹس، سوشل ویلفیئر اور ٹریفکنگ ادارہ قابل ذکر ہیں۔ بچوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے جو میٹریل، تصاویر وغیرہ، آن لائن شیئر کیا جاتا ہے، آئین کے آرٹیکل دو سو تریانوے بی اور سائبر کرائم ایکٹ کے تحت سات سے بیس سال قید اور جرمانہ کیا جاتا ہے۔ ڈارک ویب پر بچوں کی نازیبا ویڈیو اپ لوڈ کرنے والوں کو سنگین سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں زینب الرٹ ایکٹ بھی کام کر رہا ہے۔
چائلڈ لیبر تین طرح کے ہوتے ہیں:
1: ہلکا کام جس سے ذہنی و جسمانی صحت اور تعلیم متاثر نہ ہو۔
2: نارمل کام جس میں چند گھنٹے کام ہوتا ہے۔
3: ہیوی کام یعنی زیادہ بوجھ والے کام جن سے بچے کی صحت ذہنی و جسمانی طور پر متاثر ہوتی ہے اور وہ بھی خطرناک جگہوں پر جیسے ہیوی مشینری اور کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا جو کہ بچے کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
ہم سب کو مل کر بچوں کی مشقت کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، کالمز و بلاگ اور سوشل میڈیا کے زریعے عوام میں آگاہی اور شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور آنے والی نسلوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔