سیاست

نئی حلقہ بندیاں: ضم اضلاع کے سیاسی رہنماء کیا کہتے ہیں؟

عبدالستار

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی چھٹی مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں میں قبائلی اضلاع کی انضمام کے بعد قومی اسمبلی کی 12 سیٹوں کی بجائے چھ کر دیں، الیکشن کمیشن کے دفتر سے جاری کردہ ابتدائی لسٹ میں قومی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد 342 سے کم کر کے 336 جبکہ قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 272 سے کم کر کے 266 کر دی گئی ہے۔

نئی حلقہ بندیوں میں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد ضلع باجوڑ، خیبر اور جنوبی وزیرستان سے ایک ایک سیٹ جبکہ اورکزئی کا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی ختم کر دیا گیا اور اس کو ضلع ہنگو کے حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ضلع کرم اور سابقہ ایف آرز سے قومی اسمبلی کے حلقے ختم کر دیئے گئے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء مولانا خانزیب نے بتایا کہ 25ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد جو وعدے قبائلی علاقوں کے حوالے سے کئے گئے وہ ابھی تک ایفا نہیں ہوئے، این ایف سی ایوراڈ کا تیسرا حصہ، ایک ہزار ارب روپے کا فنڈ دس سال کے لئے اور اس طرح کے دیگر ترقیاتی منصوبے بھی نامکمل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد قبائلی اضلاع میں بھی صوبے کے دوسرے اضلاع کی طرح صوبائی اور قومی اسمبلی حلقے بنائے جائیں گے، قبائلی اضلاع میں بارہ قومی اسمبلی کے حلقے تھے جن پر تین بار جنرل انتخابات بھی ہوئے لیکن 2017 کی مردم شماری قبائلی علاقوں میں صحیح طریقے سے نہیں ہوئی اور بہت کم لوگ شمار کئے گئے۔

مولانا خانزیب نے کہا کہ ضلع باجوڑ کی آبادی مردم شماری میں تقریباً گیارہ لاکھ دکھائی گئی ہے لیکن ضلع کی آبادی بیس لاکھ  کے قریب ہے اور تمام قبائلی اضلاع میں سب سے زیادہ آبادی والا ضلع ہے۔ انہوں نے کہا کہ حلقے کی کمی سے لوگوں میں محرومی پیدا ہوتی ہے اور مسائل جنم لیتے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں قومی اسمبلی کی بارہ سیٹوں کو برقرار رکھنے کے لئے پچھلی حکومت نے سینٹ میں بل کو رکوا دیا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ موجودہ حکومت فی الفور نئی مردم شماری کرائے جس سے قبائلی علاقوں میں نہ صرف قومی اسمبلی کے جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی زیادہ ہو جائیں گی اور سینٹ میں پڑا بل بھی پاس کیا جائے۔

اورکزئی گرینڈ الائنس کے چیئرمین مثل خان نے بتایا کہ مردم شماری 2017 کے خلاف ایک احتجاجی تحریک 2018 میں شروع کی گئی، قبائلی علاقوں کے قومی اسمبلی کے ارکان سے ملاقاتیں کیں اور ساتھ ہی ہائی کورٹ میں اپیل بھی دائر کی گئی۔

مثل خان نے کہا کہ جس وقت مردم شماری ہوئی تھی اس وقت تمام لوگ آئی ڈی پیز تھے اور اپنے علاقوں میں موجود نہیں تھے، قبائلی علاقوں کے چھ کروڑ پشتونوں کو باون لاکھ ظاہر کیا گیا جبکہ پاکستان کے قانون کے مطابق 75 فیصد ترقیاتی فنڈز اور سہولیات آبادی کے تناسب سے تقسیم ہوتے ہیں۔

اورکزئی گرینڈ الائنس کے چیئرمین نے بتایا کہ پورے فاٹا کے لئے ہم نے تحریک چلائی، ہم نے پچھلی حکومت میں قومی اسمبلی سے چھبیسویں آئینی ترمیمی بل پاس کیا جس میں قبائلی اضلاع میں ایک ایم این اے کی جگہ دو صوبائی اسمبلی کے حلقے رکھے گئے اور پہلے سے قومی اسمبلی کے حلقوں کو بھی بدستور براقرار رکھا گیا، نئی مردم شماری تک اس پر عمل ہو گا لیکن بدقسمتی سے وہ بل سینٹ میں رکوا دیا گیا۔

مثل خان نے کہا کہ ڈیڑھ ماہ پہلے ہم پچھلی مردم شماری کے خلاف کیس بھی جیت گئے ہیں، ہائی کورٹ نے مردم شماری کو مسترد کر دیا، ہائی کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان لے گئے ہیں، ”ہم چاہتے ہیں کہ قومی شناختی کارڈ کے مستقل پتہ کی بنیاد پر مردم شماری کی جائے کیونکہ مردم شماری میں اورکزئی کی آبادی دو لاکھ پچاس ہزار نفوس پرمشتمل ظاہر کی گئی جبکہ قومی شناختی پانچ لاکھ تک بن چکے ہیں، تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ نادرہ کی رپورٹ الگ اور مردم شماری کی رپورٹ الگ ہو؟”

قومی اسمبلی سیٹ کم ہونے سے فرق کیا پڑے گا؟

اورکزئی گرینڈ الائنس کے چیئرمین نے کہا کہ قومی اسمبلی کی سیٹ کا تعلق آبادی کے تناسب سے ہے اور آبادی کم ظاہر کرنے سے قومی اسمبلی میں نمائندگی بھی کم ہو گی اور ترقیاتی فنڈز اور وسائل بھی کم ملیں گے جس کے ساتھ پورے علاقے کے ترقیاتی کاموں پر اثر پڑتا ہے، مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2017 کی مردم شماری بوگس ہے جس کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ بھی دیا ہے اور اب ہم قانونی مشاورت کریں گے تاکہ پچھلی حکومت کی جانب سے روکے گئے چھبیسویں آئینی ترمیمی بل کو سینٹ سے پاس کیا جا سکے۔

دوسری جانب جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کی خاتون ایم پی اے انیتہ محسود نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں خبیر پختونخوا کی نشستیں کم کرنا زیادتی ہے جبکہ نشستیں کم ہونے سے خیبر پختونخوا کے عوام سے ترقی اور نمائندگی چھینی گئی۔

رکن صوبائی اسمبلی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نئی حلقہ بندیوں میں سابقہ فاٹا اور موجودہ خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی کی چھ نشستوں کو ختم کرنے پر شدید برہمی اور رنج کا اظہار کیا اور کہا کہ اس اقدام سے ہماری نمائندگی، امن اور آنے والی نسلوں کی ترقی بہت بری طرح متاثر ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں جب بھی سابقہ فاٹا پر بات چیت یا قانون سازی ہو گی تو قومی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے ترقیاتی فنڈز کی ترسیل بھی کم ہو گی جس سے خیبر پختونخوا کے عوام میں مایوسی بڑے گی۔

انیتہ محسود نے کہا کہ اپنا آئینی اور قانونی حق واپس لینے کیلئے ہر قانونی فورم پر الیکشن کمیشن کے ان اقدامات کو چیلنج کروں گی، بہت جلد الیکشن کمیشن میںاس اقدام کے خلاف درخواست بھی جمع کروں گی۔

ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان خیبر پختونخوا کے آفیسر خوشحال زادہ نے اس حوالے سے بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں آئین کے رولز کے مطابق چھ حلقے کم کر دیئے جس کے ساتھ خیبر پختونخوا یونٹ کے پینتالیس قومی اسمبلی کے حلقے بن جاتے ہیں جبکہ اس کی کمی کے ساتھ خواتین اور اقلیتی سیٹوں پر اثر نہیں پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ پختونخوا میں قومی اسمبلی کے حلقے کے لئے آبادی کا تناسب سات لاکھ 88 ہزار 933 جبکہ صوبائی اسمبلی کے لئے تین لاکھ 8 ہزار 713 افراد مقرر کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اہلکار نے کہا کہ 2018 کے جنرل الیکشن کے لئے حلقہ بندیاں مردم شماری کے پرویژنل ڈیٹا پر کرائی گئی تھیں کیونکہ اس وقت ملک کی چھٹی مردم شماری 2017 پبلش نہیں ہوئی تھی جبکہ اب نئی حلقہ بندیاں مردم شماری کے اوریجنل ڈیٹا پر کی جا رہی ہیں جس پر اعترض کی اپیل کے لئے تیس جون تک وقت مقرر کیا گیا ہے جس کے بعد ختمی لسٹ تین اگست کو لگائی جائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button