پودے لگائیں ماحول بچائیں اور ثواب کمائیں
انیلا نایاب
آج نظروں سے ایک پوسٹ گزرi. ایک تصویر میں درخت کو دکھایا گیا ہے جس کے نیچے ہر کسی نے گاڑی کھڑی کی ہے اور ساتھ میں لکھا ہے کہ ہر کوئی درخت کے نیچے گاڑی کھڑی کرنا چاہتا ہے لیکن درخت اگانا نہیں چاہتا۔
دنیا بھر میں کلائمیٹ چینچ کی وجہ سے موسم بالکل بدل گیا ہے، بارش کا برسنا کم اور بے وقت ہو گیا ہے۔ جب ضرورت ہوتی ہے تو بارش نہیں برستی اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو کافی برستی ہے جس کی وجہ سے ہماری رزاعت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ہمارے ہاں سردی، گرمی، خزاں اور بہار کے موسم ہوا کرتے تھے لیکن اب تو لگتا ہے گرمی کا ہی موسم باقی رہ گیا ہے، باقی تینوں کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ ماہرین ماحولیاتی کہتے ہیں کہ یہ سب جنگلات کی کٹائی اور دوبارہ پودے نا لگانے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
بچپن میں جب ہم گاؤں جاتے تھے تو ہرے بھرے درخت اور کھیت ہوا کرتے تھے لیکن اب کچھ سالوں میں وہی پھل کے باغات اور پودے ختم ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیز اور کالونیوں نے لے لی ہے۔ اب جب بھی شہر سے روانہ ہوتے ہیں تو شہر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، ان درختوں، کیھتوں اور باغات کی جگہ مارکیٹ اور دکانیں نظر آئیں گی۔
کچھ دن پہلے چارسدۃ جاتے ہوئے ایک جگہ ایک دو آلوچے کے باغات نظر آئے، بھائی سے کہا یہاں تھوڑا سا رک جاتے ہیں، اترے تو وہاں ایک مالی بابا نظر آیا۔ ان سے دعا سلام کے بعد پوچھا، پہلے تو یہاں کافی باغات ہوتے تھے لیکن اب تو ساری آبادی یہاں آ گئی ہے، یہ کیوں؟
مالی کاکا نے جواب دیا کہ باغات خراب ہو گئے ہیں، اس کی دو وجوہات ہیں؛ ایک تو جب ضرورت ہوتی تھی بارش نہیں ہوتی تھی اور جب درختوں پر پھول لگ جاتے تو خوب بارش یا ژالہ باری ہو جاتی تھی جس سے کافی نقصان ہو جاتا تھا، اتنی پیداوار ہو جاتی کہ اپنا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا تھا جس نے کافی قرض دار بنا دیا تھا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اب مارکیٹ اور ہاوسنگ سوسائٹیز یا پراپرٹی میں کافی منافع ہے، بس ہر بندے کو منافع اچھا لگتا ہے خسارے کا سودا کوئی بھی نہیں کرتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ منافع کے لالچ میں جو تھوڑے بہت درخت ہیں وہ بھی کاٹ رہے ہیں جس سے ماحولیاتی مسائل بڑھ جائیں گے نا کہ کم ہوں گے۔
باہر کی دنیا میں اگر ایک درخت کو کاٹا جاتا ہے تو اس کی جگہ بے شمار لگائے بھی جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں صرف کٹائی ہو رہی ہے لیکن لگانے کا شوق کسی کو بھی نہیں ہے۔ آج کل کا تعلیم یافتہ طبقہ اس بات سے لا اعلم ہے یا پتہ نہیں کیا وجہ ہے۔
بچپن میں ہم نے یہیں دیکھا ہے کہ مارچ اور اپریل کے مہینے میں بہت زیادہ بارشیں ہوا کرتی تھیں اور موسم بے حد خوشگوار ہوا کرتا تھا خاص طور پر رات کو ٹھنڈ ہوتی تھی۔ اب کچھ سالوں سے مارچ سے ہی گرمی شروع ہو جاتی ہے ۔ سردی بھی اب صرف نام کی رہ گئی ہے۔
اب گرمیوں کا موسم کیا سردیوں میں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ سردیوں میں موسم سرد اور خشک ہوتا ہے۔ پودوں کی کٹائی جتنی تیزی سے ہوتی ہے اس سے کئی زیادہ کم رفتار سے پودوں کو کاشت کیا جاتا ہے۔ ایک درخت کٹ تو جاتا ہے پہلے تو اس کی جگہ نیا پودا لگتا نہیں اگر لگ بھی جائے تو ایک درخت کے بڑے ہونے میں تقریباً کئی سال لگ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ درخت منٹوں میں کاٹا جاتا ہے لیکن ایک پودے کو تناور درخت بننے میں کئی سال لگتے ہیں۔
پودے فضا کو خوشگوار بنانے کے ساتھ ساتھ سیلاب کی روک تھام میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت نے بلین سونامی ٹری کا منصوبہ تو شروع کیا تھا، اب پتہ نہیں کہاں تک پہنچا۔ کوئی کہتا ہے یہ منصوبہ کامیاب ہے تو کوئی کہتا ہے ناکام ہے۔
ہم سب کو چاہئے کہ حکومت کا ساتھ دیں تاکہ آنے والے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ ہمیں چاہئے کہ گھر، دفتر اور تعلیمی اداروں میں پودے لگائیں جس سے نا صرف ماحول پر مثبت اثر پڑے گا بلکہ درخت اور پودے گھر یا دفتر کی خوبصورتی کا بھی باعث بنیں گے۔
ایک پودا لگانے سے بہت ثواب بھی ملتا ہے۔ اگر ہم کسی کو کوئی تحفہ دیں اور وہ ایک پودا ہو تو جتنے سال تک وہ پودا سرسبز ہو گا اتنے ہی سال پودا دینے والے کو ثواب ملے گا۔ ایک پودا مسلسل دن رات اللہ کا ذکر کرتا ہے تو پودا لگانے والے کو کتنا ثواب ملے گا۔ غرض یہ کہ پودوں کو ہر حال میں لگانے کی کوشش کریں تاکہ کلائمیٹ چینچ پر قابو پایا جا سکے۔