10 اپریل 2022: عمران خان نے کیا کھویا کیا پایا؟
محمد فہیم
پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی 10 اپریل 2022 کو ایک آئینی طریقے سے اپنے عہدے سے ہٹا دیئے گئے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا جب ایک وزیر اعظم نے آئینی طریقے سے اپنی مدت مکمل نہیں کی اور جس ایوان نے انہیں منتخب کیا تھا اسی ایوان نے انہیں عہدے سے ہٹا دیا۔
عمران خان وزیر اعظم کے عہدے پر تین سال 7 ماہ اور 22 دن تک رہے جس کے بعد ان کی جگہ ایوان نے شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ عمران خان اپنے عہدے سے ہٹنے کے بعد سے لے کر اب تک ایک لمحہ بھی سکون سے نہیں بیٹھے اور موجودہ حکومت کیلئے ہر ممکن مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے، عمران خان روز اول سے موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت امریکی دباؤ کے تحت گرائی گئی جبکہ موجودہ حکومت امریکی ایماء پر قائم کی گئی ہے۔ عمران خان کو اپنے عہدے سے ہٹے 55 روز ہو گئے ہیں اور ان 55 روز کے دوران عمران خان نے جہاں بہت کچھ کھو دیا ہے وہیں بہت کچھ حاصل بھی کر لیا ہے۔
عمران خان نے کیا حاصل کیا؟
نمبر 1۔ عمران خان جب اقتدار میں تھے تو ان کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کو کنٹرول کرنا تھا اور وہ خود اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ مہنگائی بے قابو ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ان کیلئے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان کے مخالفین یہ دعویٰ کرتے تھے کہ عمران خان کی بیڈ گورننس یعنی بدانتظامی کے باعث مہنگائی پیدا ہو گئی ہے۔ اگر ایک قابل اور تجربہ کار ٹیم آئے گی تو ملک میں مہنگائی تھم جائے گی لیکن جب سے عمران خان کرسی سے اترے ہیں اور ایک تجربہ کار ٹیم آئی ہے مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو عمران خان کے مخالفین کیلئے کسی بھی دھچکے سے کم نہیں ہے، پیٹرولیم مصنوعات میں ریکارڈ اضافہ کے بعد اب مہنگائی کی شرح بھی ریکارڈ سطح تک پہنچنے کا اندیشہ ہے جس کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے۔
نمبر 2۔ عمران خان کے بطور وزیر اعظم رہنے سے ان کا ورکر ان سے دور ہو گیا تھا اور ورکرز کے تمام معاملات ارکان قومی و صوبائی اسمبلی دیکھتے تھے عمران خان ایک مخصوص گروپ تک محدود تھے جنہیں ان کی کچن کیبینٹ کے طور پر جانا جاتا تھا، ان کی کارکن سے دوری ان کے انتخابات میں جانے کے دوران انتہائی خطرناک تھی لیکن ان کی کرسی چھن جانے سے انہیں ایک بار پھر کارکن کے قریب آنے کا موقع مل گیا ہے اور ان 55 دنوں میں عمران خان کا ورکر اپنے قائد کے انتہائی قریب ہو گیا ہے۔
نمبر 3۔ عمران خان کی مقبولیت کا گراف ہر گزرتے دن کے ساتھ بطور وزیر اعظم مسلسل گراوٹ کا شکار تھا اور یہ پی ٹی آئی حلقوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ تھا۔ عمران خان نے کئی بار خود کو بطور برانڈ پیش کیا اور پارٹی ترجمانوں کو یہی ہدایت کی کہ عمران خان کو بطور برانڈ پیش کریں لیکن اس برانڈ کی مقبولیت انتہائی کم ہو چکی تھی جس کی گواہی مختلف سروے کرنے والے اداروں نے بھی دی۔ کرسی سے اترنے کے بعد عمران خان نے جس طرح اپنی پارٹی مہم چلائی ہے ان کی مقبولیت کا گراف تین گنا سے بھی زائد بلند ہو گیا ہے اور اسے عمران خان کی اہم کامیابیوں میں شمار کیاجا سکتا ہے۔
نمبر 4۔ عمران خان نے اپنا جو بیانیہ امریکہ کیخلاف اور نئی آنے والے حکومت کیخلاف بنایا ہے ان کے ورکرز نے اس پر من و عن یقین کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی کا کارکن آج کسی بھی صورت امریکہ کی غلامی کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ موجودہ حکومت امپورٹڈ ہے اور اس کے آنے سے ملک و قوم کا نقصان ہو رہا ہے، اپنے ورکرز کا یہ اعتماد اور یقین حاصل کرنا آئندہ عام انتخابات میں عمران خان کیلئے سب سے کلیدی نقطہ ہو گا۔
نمبر 5۔ عمران خان جب سے وزیر اعظم کے عہدے سے اترے ہیں، انہیں اپنی پارٹی کی انتہائی کمزور تنظیم بھی نظر آ گئی ہے اور جو ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی پنجاب، خیبر پختونخوا اور وفاقی کابینہ میں موجود ہوتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے وہ اچانک سے عمران خان کے ریڈار میں آ گئے، ان کی ناقص کارکردگی بھی عمران خان نے انتخابات میں جانے سے قبل دیکھ لی اور اب اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے پارٹی کو جو نقصان ہوا ہے اس نقصان کا ازالہ کرنے کا بھی کافی وقت عمران خان کے پاس موجود ہے۔
عمران خان نے کیا کھویا؟
نمبر1۔ عمران خان جب حکومت میں آئے تو ان کا سب سے بڑا دعویٰ یہی تھا کہ یہ پہلی حکومت ہے جس میں تمام ادارے ایک پی پیج پر ہیں۔ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ سمیت عمران خان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر بھرپور حمایت حاصل رہی جو شاید اس سے قبل کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کو حاصل نہیں تھی لیکن اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار میں عمران خان وہ حمایت کھو بیٹھے ہیں اور آج عمران خان اس قطار میں اکیلے کھڑے ہیں جس قطار میں ان کا ساتھ دینے والوں کی ایک بڑی تعداد ماضی میں موجود تھی۔
نمبر 2۔ عمران خان جس طرح سے اپنی کرسی سے ہٹائے گئے ہیں شاید ہی کوئی وزیرا عظم تاریخ میں اپنی پہچان اس طرح سے کرانا چاہے۔ عمران خان نے اپنی کرسی بچانے کیلئے اسمبلی توڑ دی، اپوزیشن کی عدم اعتماد کی قرارداد ٹھکرا دی، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو پارٹی کیلئے استعمال کیا جس کے بعد مجبوراً عدالت کو مداخلت کرنی پڑی، اس کے باوجود بھی انہوں نے کرسی نہیں چھوڑی اور 10 اپریل کی رات 12 بجے تک جو میدان سجائے رکھا عمران خان یہ سب کرنے کے بعد اداروں کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بعد میں جو کچھ پنجاب میں ہوا اس نے عمران خان کی رہی سہی ساکھ کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔
نمبر 3۔ عمران خان لانگ مارچ کرنے سے قبل ایک ایسی رفتار پکڑ چکے تھے جس نے حکمرانوں کو اسمبلی توڑنے کے فیصلے پر سوچنے پر مجبور کر دیا تھا تاہم جب وہ ملتان سے پشاور آئے اور پشاور میں یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ لانگ مارچ کا اعلان نہیں کریں گے اور انہوں نے اعلان کر دیا تو شاید وہ ٹریپ ہو (جال میں پھنس) گئے تھے اور یہی عمران خان کیلئے اس وقت سب سے بڑا نقصان ہے۔ عمران خان لانگ مارچ میں اس تعداد میں ورکرز کو نہیں نکال سکے جتنا انہیں امید تھی اور مجبوراً انہیں لانگ مارچ اگلی صبح ہی ختم کرنا پڑ گیا جس کا اثر ایسا ہوا کہ جو پریشر انہوں نے حکومت پر بنایا تھا وہ بھی ختم ہو گیا اور حکومت نے اپنی مدت مکمل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سخت معاشی اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے۔
نمبر 4۔ عمران خان کا پشاور میں موجود رہنا ان کی ساکھ کیلئے سب سے بڑا نقصان ہے اور اب یہ رائے بن گئی ہے کہ عمران خان ڈر گئے ہیں اور جیل جانے کے خوف کے باعث وہ خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں۔ عمران خان ہمیشہ سے جارح مزاج کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن ملتان سے واپس پشاور اور اسلام آباد لانگ مارچ کے بعد دوبارہ پشاور آ کر وزیر اعلیٰ ہاؤس میں مقیم ہو جانا ان کی جارح مزاج شخصیت کے تاثر کو زائل کر چکا ہے اور اب یہ عام فہم بات ہے کہ جس طرح عمران خان ورکرز کو دلیری سے نکلنے کا حکم دیتے ہیں خود اس دلیری سے حالات کا سامنا نہیں کر رہے۔
نمبر 5۔ عمران خان کے لانگ مارچ میں پی ٹی آئی پنجاب میں انتہائی کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر نظر آئی ہے جو عمران خان کیلئے سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ پنجاب میں حکومت آئے بغیر ملک پر حکمرانی کا خواب عمران خان نہیں دیکھ سکتے اور جس طرح لانگ مارچ میں ان کے ورکرز نے مار کھائی عمران خان پشاور میں ان سے دور رہے اور مقامی قیادت غائب رہی، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب عمران خان کا نہیں ہے اور انہیں شاید وہاں دوبارہ گراس روٹ سطح سے کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔
سابق وزیر اعظم آج بھی پشاور میں مقیم ہیں اور جن مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ان سے بخوبی واقف ہیں تاہم ان مسائل کو ختم کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی پلان نظر نہیں آ رہا، وہ لانگ مارچ کی تاریخ دینے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں وہ زیادہ وقت مقیم نہیں رہ سکتے لیکن اگر موجودہ حکومت نے ایوان کی مدت مکمل کر لی تو عمران خان کو اس بات کا قومی یقین ہے کہ دوبارہ اقتدار کے حصول کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔