محبت میں لڑائی جھگڑا: ”ٹکراتے ہیں وہ جو نزدیک ہوتے ہیں”
ڈاکٹر سردار جمال
جو محبت نفرت اور جھگڑے کے ساتھ موجود ہو وہ باقی نہیں رہ سکتی۔ لہذا اگر آپ کسی جوڑے کو کبھی جھگڑتا ہوا نہ دیکھیں تو یہ مت سمجھیں کہ وہ مثالی جوڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جوڑا نہیں ہے۔ وہ متوازی زندگی گذار رہے ہیں ۔ مگر ایک دوسرے کے ساتھ نہیں۔ وہ متوازی لکیریں ہیں جو کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ لڑنے کے لیے بھی نہیں۔ وہ دونوں آپس میں تنہا ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوٸے بھی تنہا!
متوازی ذہن ہمیشہ الٹی حرکت کرتا ہے اس لیے نفسیات دان ایک اچھا مشورہ دیتا ہے۔ مشورہ صاٸب، بہت گہرا اور زیادہ موثر ہے۔ وہ کہتا ہے اگر فی الحقیقت محبت کرنا چاہتے ہیں تو لڑنے سے مت ڈرٸیے لہذا بے دھڑک لڑ لیجیے تاکہ آپ محبت کی دوسری انتہا تک پہنچ سکیں۔ لہذا جب بھی بیوی سے لڑنے کا موقع ملے تو اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں ورنہ محبت بھی ہاتھ سے چلی جاٸے گی۔ اس کو جانے نہ دیں۔
جب لڑنے کا موقع آ جاٸے تو جھگڑے کو انتہا تک پہنچاٸیے۔ پھر شام ہونے تک آپ محبت کے قابل ہو جاٸیں گے۔ ذہن اس وقت تک حرکت کی مناسبت سے قوت مجتمع کر چکا ہو گا۔ عام محبت جھگڑے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی کیونکہ یہ ذہن کی تحریک ہے۔ صرف وہی محبت جھگڑے کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے جس کا ذہن سے کوٸی تعلق نہ ہو۔ اس کا تعلق صرف دل سے ہوتا ہے، یہ پاک محبت ہوتی ہے، ہوس سے پاک لیکن ہماری محبت ذہن والی محبت ہے اور اس کا قاٸم داٸم رکھنا جھگڑے کی مرہون منت ہے۔
میں فلسفی اوشو صاحب کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ ٹکراتے ہیں وہ جو نزدیک ہوتے ہیں، جب دو اجسام ایک دوسرے سے دوری پر ہوں تو وہ کھبی نہیں ٹکراتے، چونکہ ہم کاہل ہیں اور ہم مشکل اٹھانے سے کتراتے ہیں اس لئے جب ہم رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس بات کی تصدیق لیتے ہیں کہ رشتہ ایسے خاندان اور لڑکی سے کیا جائے جو مکمل طور خامیوں سے پاک اور پارسا ہو مگر فطرت کے قانون میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے، مثبت اور منفی لازم و ملزوم ہیں، گرم اور یخ، شب و روز، خزان و بہار اور اسی طرح غم و خوشی کی طرح پیار محبت کے ساتھ لڑائی جھگڑا بھی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔
رشتہ جوڑنے سے پہلے چونکہ ہم یک طرفہ ٹریفک چلانے کا فیصلہ کر چکے ہیں اس لئے شادی کے بعد جب تھوڑے بہت اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم آسمان کو سر پر اٹھائے پھرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو پاک اور دوسرے کو گناہ گار ثابت کر سکیں، اسی طرح ہم مقدس رشتے کھو دیتے ہیں، تمام زندگی پشیمانی اور پریشانی کا بھاری بھرکم بوجھ بن کر تادمِ مرگ ہمارے کندھوں پر پڑا رہتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ہم لالچی بن کر فطرت کا قانون نظر انداز کر دیتے ہیں، ہم رشتہ جوڑتے وقت رشتہ نبھانے کا نہیں سوچتے بلکہ عجیب سا فیصلہ یہ کرتے ہیں کہ میں ایک ایسا پھول لے رہا ہوں جس کے ساتھ کانٹے ہی نہ ہوں، ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ پھول ہی نہیں جس کے ساتھ کانٹے نہ ہوں، وہ محبت ہی نہیں جس میں ناز و ادا نہ ہو، وہ وصال ہی نہیں جس میں فراق نہ ہو، ایسی جوانی نہیں جس کو بڑھاپا نہ ہو، ایسی بیماری نہیں جو صحت مندی سے پہلے آئی ہو، ایسی موت ہی نہیں جس نے زندگی نہ دیکھی ہو۔ اور دنیا میں ایسا کاروبار ہی نہیں ہے جو نقصان اٹھانے سے خالی ہو۔
نفع و نقصان لازم و ملزوم ہیں، اس طرح محبت وہ ہے جس کے ساتھ فراق، جدائی، خفگان اور لڑائی جھگڑے بندھے ہوئے ہوں۔ وہ جو محبت کرتے ہیں، جھگڑنے کے بعد محبت کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے، فراق کے بعد وصال کی باری آتی ہے، اگر فراق نہ ہوتا تو وصال بھی نہ ہوتا، اگر لڑائی جھگڑا نہ ہوتا تو نبھانا ہی نہ ہوتا، جب نبھانا ہوتا ہے تو یہ محبت ظاہر ہونے کی عجیب سی منظر کشی ہوتی ہے، ایسی منظر کشی جس میں دو بندوں کے پیار بھرے احساسات یکجا ہو کر دو بندوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیتے ہیں۔
مگر ہم محبت نہیں کرتے، ہم کاروبار کرتے ہیں اور کاروبار میں نقصان اٹھانے سے بچنے کے بارے سوچا جاتا ہے جبکہ محبت کرنے والے نڈر ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ فائدے میں ہوتے ہیں کیونکہ انہیں محبوب کی ہر ادا دلکش لگتی ہے اور وہ محبوب کا ہر ستم بہت خوش اسلوبی اور خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔