چھاتی کا سرطان: تیسرے اور چوتھے درجے میں خاتون کا بچنا مشکل ہوتا ہے
محمد فہیم
پاکستان کی خواتین کئی مہلک بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں تاہم حال ہی میں اچانک سے سامنے آنے والی بیماری کا نام بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کا سرطان ہے اور اس بیماری کا شکار ہو کے جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی بڑی وجہ خواتین کی شرم و حیاء اور اپنے مسائل کو خود تک رکھنا ہے۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر کا باعث بننے والے بہت سے عوامل میں سب سے عام موٹاپا، تاخیر سے شادی کرنا اور 35 سال کی عمر کے بعد پہلا بچہ پیدا کرنا ہے۔ بدقسمتی سے خواتین شرم محسوس کرتی ہیں، اپنے درد اور چھاتی کے کینسر کی علامات کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتی ہیں جس کی وجہ سے کینسر مزید بگڑ جاتا ہے۔ اور جب انہیں ہسپتال لایا جاتا ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
پشاور کے نجی ہسپتال نارتھ ویسٹ میں کئی برسوں سے چھاتی کے سرطان کے مریضوں کا علاج کرنے والی ڈاکٹر نایاب کہتی ہیں کہ چھاتی کے اردگرد کوئی غیرمعمولی تبدیلیاں کینسر کی ابتدائی علامت ہو سکتی ہیں لہذا خواتین کو انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، ایسی خواتین جن کی عمر 20 سے 40 سال کے درمیان ہے وہ اپنی جانچ خود کریں اور ہو سکے تو تین سال میں ایک مرتبہ سکریننگ کرنے ڈاکٹر کے پاس جائیں جبکہ 40 سال سے زائد عمر کی خواتین سال میں ایک مرتبہ ضرور ڈاکٹرز کے پاس جائیں اور اپنا چیک اپ کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو سائز، رنگ، شکل یا کسی بھی گانٹھ، جلد کے ابلنے اور نپلوں سے غیرمعمولی مادہ خارج ہونے پر ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر نایاب خان نے بتایا کہ اب تک خیبر پختونخوا میں سامنے آنے والے کیسز میں 75 فیصد سے زائد خواتین دیہی علاقوں سے ہیں اور ان کی عمریں بھی زیادہ ہیں، ان خواتین میں چھاتی کا سرطان بڑھ چکا ہے جس کے باعث ان کی زندگی خطرات سے دوچار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری خواتین کی بڑی تعداد شرم اور حیاء کے باعث چھاتی میں محسوس ہونے والی گلٹی، اس سے بہنے والے خون یا پانی کے حوالے سے کسی سے بات نہیں کرتیں جس کی وجہ سے یہ موذی مرض شدت اختیار کر لیتا ہے۔
ماہرین طب کے مطابق چھاتی کا کینسر کسی ایک وجہ سے نہیں ہوتا، یہ ایک سیل گروپ کی نشوونما کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی جسم کی قابلیت پر قابو پانا ہے، حمل سے منسلک چھاتی کا کینسر (پی اے بی سی) حمل کے دوران یا حمل کے پہلے ٓسال میں تشخیص شدہ چھاتی کے کینسر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، یہ 3000 میں سے تقریباً ایک حاملہ عورت کو متاثر کرتی ہے اور حمل کو متاثر کرنے والی دوسری عام بیماری ہے، حاملہ خواتین کو متاثر کرنے کی اوسط عمر 32 سے 38 سال ہے، یہ ایک انتہائی جارحانہ کینسر ہے جو کسی بھی خاتون کو ہو سکتا ہے اور یہ حمل کے دوران پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ ہارمونل اثرات کی وجہ سے کینسر بہت جارحانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق حمل سے وابستہ چھاتی کے کینسر کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور اس کی وجہ بچے کی پیدائش میں تاخیر ہے، کچھ خطرے کے عوامل طرز زندگی سے متعلق ہیں، بشمول پیدائش پر قابو پانے والی گولیوں کے استعمال کے، ماہواری نہ آنے والی عمر کے بعد ہارمون تھراپی، بچے پیدا کرنا، زیادہ وزن یا موٹا ہونا اور جسمانی طور پر فعال نہ ہونا اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایک یا کئی خطرے والے عوامل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت چھاتی کا کینسر پیدا کرے گی، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چھاتی کے کینسر میں سے صرف 5 فیصد جینیات کی وجہ سے ہوتے ہیں، اگر خاندانی ہسٹری ہے تو خواتین کو جینیاتی ٹیسٹ کروانا چاہیے کیونکہ کینسر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے، چھاتی کے کینسر کے اہم خطرے والے عوامل میں ایک عورت ہونا اور بوڑھا ہونا شامل ہے کیونکہ زیادہ تر چھاتی کے کینسر 40 سال اور اس سے زیادہ عمر کی خواتین میں پائے جاتے ہیں، بے قابو عوامل جو خطرے کو بڑھا سکتے ہیں ان میں ذاتی یا خاندانی ہسٹری، نسل، چھاتی کی کثافت اور ماہواری کی تاریخ میں تبدیلی شامل ہیں۔
دنیا بھر میں مختلف ممالک بیماری کے پھیلاؤ کی بنیاد پر مختلف اسکریننگ پروگرام چلاتے ہیں تاہم جینیاتی اور خاندانی تاریخ کی بنیاد پر ابتدائی عمر میں بھی چھاتی کا کینسر لاحق ہو سکتا ہے لہٰذا خواتین کو کم عمری میں ہی سکریننگ کرانی چاہئے جبکہ میموگرام ہی واحد آپشن نہیں ہے، اس کی اسکریننگ کے اور بھی طریقے ہیں۔
چھاتی کے سرطان کی ماہر ڈاکٹر سمرہ افتخار کہتی ہیں کہ اگر چھاتی کے کینسر کی بروقت تشخیص کی جائے تو اس کا علاج ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بروقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے بیماری خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے ذکر کیا کہ بیماری کی روک تھام کے لیے آگاہی ضروری ہے اور آگاہی کے لیے یونیورسٹیوں سے بہتر کوئی پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا جس کے باعث پشاور سمیت صوبہ بھر میں جامعات کی طالبات کو آگاہ کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے، چھاتی کے کینسر کے مریضوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے کے لیے آگاہی ضروری ہے، اگر اس بیماری کا آسانی سے پتہ چل جائے تو اس کی بقا کی شرح بہت اچھی ہے۔
ڈاکٹر سمرہ نے بتایا کہ پشاور کے ہسپتالوں میں بڑی تعداد افغانستان کی خواتین کی بھی ہے جو چھاتی کے سرطان کا شکار ہیں جن کا علاج جاری ہے جبکہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں کی خواتین کی بھی بڑی تعداد اس مرض سے متاثر ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر سمرہ افتخار نے بتایا کہ 30 سالہ ایک جوان لڑکی کے مردوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک خاتون میں چھاتی کا سرطان سامنے آ گیا تھا تاہم اس کا درست علاج شروع نہ ہونے کی وجہ سے اس کی جان خطرے میں ڈال دی گئی، اس خطے میں فیصلے مرد کرتے ہیں اور چھاتی کے سرطان سے متعلق خواتین کی خاموشی ان کی زندگی خطرات سے دوچار کر دیتی ہے، اگر گھر کی عورتیں خصوصاً بزرگ خواتین اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں تو جوان عورتوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر سمرہ افتخار کے مطابق وقت آہستہ آہستہ بدل رہا ہے اور ہزاروں کیسز سامنے آنا انتہائی مثبت اقدام ہے، یہ وہ خواتین ہیں جو سامنے آ رہی ہیں، پہلے بھی یہ کیسز تھے لیکن اب لڑکیاں آتی ہیں اور چیک اپ کراتی ہیں جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ آگاہی پیدا ہو رہی ہے اور یہ ایک مسلسل طریقہ کار ہے جو جاری رہنا چاہئے، میڈیا سمیت تمام طریقہ کار اپناتے ہوئے خواتین کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں یہ معلوم ہو کہ وہ کن خطرات سے دوچار ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ گھر کے مرد ان خواتین کو تحفظ کا احساس دیں اور وہ اپنی خواتین کا باقاعدگی سے چیک اپ کرائیں اب پورے صوبے کے ہسپتالوں میں خواتین عملہ موجود ہے، اگر ابتدائی چیک اپ اپنے ہی علاقے میں کراتے ہوئے کسی بھی مسئلہ کی نشاندہی ہو جائے تو پشاور ایبٹ آباد یا کسی بھی بڑے شہر اس متاثرہ خاتون کو لایا جا سکتا ہے تاہم اپنے علاقے میں باقاعدہ چیک اپ کرانا لازمی ہے۔
چھاتی کے سرطان کے حوالے سے اگر پاکستان کی بات کی جائے تو کچھ عرصہ قبل پاکستان میں شرح اموات بہت زیادہ تھی کیونکہ چھاتی کے کینسر کی 70 فیصد مریضائیں تیسرے مرحلے میں علاج کے لیے آتی ہیں اور ان میں سے بیشتر آگاہی کی کمی، معاشرتی ممنوعات اور بیماری سے منسلک بدنامی کی وجہ سے کبھی علاج نہیں ڈھونڈتیں، چھاتی کے سرطان میں 5 درجے ہیں جن میں صفر، پہلا اور دوسرا درجہ ایسا ہے جہاں خواتین کے بچنے کے امکانات زیادہ ہیں تاہم تیسرا اور چوتھا درجہ انتہائی خطرناک ہے اور خواتین کا بچنا اس درجہ پر مشکل ہوتا ہے۔
پاکستان میں صحت کا ناقص نظام، صحت کی سہولیات کا فقدان، خواتین کنسلٹنٹس کی عدم موجودگی اور مالی مسائل خواتین کی اسکریننگ اور ابتدائی تشخیص اور علاج میں رکاوٹیں ہیں، پاکستان میں کینسر کی کوئی قومی رجسٹری نہیں اس لیے چھاتی کے کینسر پر مقامی تجرباتی تحقیق کرنے کی ضرورت اب بھی موجود ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں 90 ہزار خواتین چھاتی کے سرطان کا شکار ہو رہی ہیں جن میں 40 ہزار سے زائد ایسے مرحلے پر سامنے آتی ہیں جب ان کی جان بچانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق چھاتی کا کینسر 100 فیصد قابل علاج ہے اور کئی مریضائیں علاج کے بعد کامیاب زندگی گزار رہی ہیں تاہم جس چیز کی ضرورت ہے وہ ابتدائی تشخیص ہے تاکہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی زندگی جاری رکھیں۔
پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے جاں بحق 40 ہزار خواتین کی تعداد ایشیاء میں چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات کی سب سے زیادہ شرح ہے. یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ایک کروڑ خواتین کو چھاتی کے کینسر کا خطرہ ہے یعنی پاکستان کی ہر دسویں خاتون کو یہ خطرہ لاحق ہے، دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کی اوسط عمر 55 سال ہے جبکہ پاکستان میں پہلی عمر 35 سال ہے۔