کیا آپ پشتون بچوں کے کھیل ”چمچمیر” سے واقف ہیں؟
ناہید جہانگیر
بچپن کی بہت سی یادوں کے ساتھ ہر سال گرمی کے موسم میں ایک حسین یاد ”چمچمیر” بھی ہے جو اکثر یاد آتا ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ ملک کے اور صوبوں میں اس کی روایت ہے کہ نہیں یا اس کو کیا کہتے ہوں گے لیکن خیبر پختونخوا میں شاید نام الگ الگ ضرور ہوں لیکن لوگ کم از کم اس روایت کو ضرور جانتے ہوں گے۔
”چمچمیر” گاؤں اور شہر دونوں میں بچوں کا اہم مشغلہ ہوا کرتا تھا اور اس ذمہ داری کو بچے ہر سال شدید گرمی کے موسم میں ذمہ داری کے ساتھ نبھاتے تھے۔
”چمچمیر” کیا ہے اور بچے اسے کیوں کھیلتے تھے اس کے پیچھے بھی عجیب منطق ہوا کرتی تھی۔ جب بھی گرمی میں اضافہ ہوا کرتا ہے تو لوگ مختلف عبادات کرتے ہیں، توبہ کرتے ہیں یا نماز استسقاء پڑھتے ہیں۔
مجھے اب بھی یاد ہے کہ بچپن میں سخت گرمی والے دن باران رحمت برسنے کے لیے ایک ایک سے زائد بچے اپنے منہ پر کالک مل لیتے تھے جبکہ اور بے شمار بچوں کا ٹولہ اس کے پیچھے ہو جاتا تھا، یہ بچے ہر گھر میں جا کر آواز لگاتے ”مونگ چمچمیر غواڑو یو موٹی اوڑہ غواڑو” یعنی ہمیں چمچمیر میں تھوڑا سا گندم کا آٹا چاہیے۔ کہیں کہیں بچے یہ صدا بھی لگاتے، ”تورمخے ماما ژاڑی، پہ مخ سپیڑہ غواڑی، یو موٹے اوڑہ غواڑی” (ماما رو سیاہ رو رہا ہے، منہ پے ایک تھپڑ اور ایک مٹھی آٹا مانگ رہا ہے)۔
اس آواز کے ساتھ ہی ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق آٹا، گندم، گڑ یا نقد رقم دیتے اور اللہ سے امید کرتے تھے کہ آج یا کل بارش ہو جائے گی۔
چمچمیر مانگنے والے بچوں کا گروپ پورے محلے میں گھومتا تھا۔ اس گروپ کا ایک بچہ سربراہ ہوتا تھا جو چمچمیر میں ملنے والی تمام چیزیں اور رقم اکٹھی کرتا تھا۔ تمام چیزیں اکٹھی کرنے کے بعد ایک دکاندار کے ہاتھ فروخت کر دی جاتی تھیں۔ ملنے والی رقم سے شربت بنانے اور ایک اور روایتی پکوان بنانے کے لیے سامان خریدا جاتا تھا جس کو پشتو زبان میں ”گنڑی” کہتے ہیں،۔ ”گنڑی” پشتو زبان کا لفظ ہے اور پشتونوں کا روایتی پکوان ہے جس میں گندم، چنا، لوبیا اور جو کو ایک بہت بڑی دیگچی میں ڈال کر پانی میں ابالتے ہیں اور نرم ہونے کے بعد چھان لیتے ہیں، تیار ہونے پر اسے گھر گھر میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
شربت بھی کافی مقدار میں بنایا جاتا تھا اور راستے سے جو بھی گرزتا اس کو ایک گلاس پلایا جاتا، اس پورے عرصہ میں باران رحمت برسنے کے لیے بھی خصوصی دعا کی جاتی تھی۔ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ایک دو دن میں بارش بھی ہو جاتی تھی۔ اللہ تعالی بچوں کی دعا قبول کر لیتے تھے۔
لیکن بعض محلوں میں بچے کسی بزرگ یا بندے پر ٹھنڈا پانی بھی ڈال کر بھاگ جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پانی ڈالنے کے بعد کس طرح وہ لوگ غصہ کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف القابات سے بھی نوازا کرتے تھے لیکن بچے سنی ان سنی کر کے بھاگ جاتے تھے اور ساتھ کھڑے لوگ بھی ان القابات سے لطف اندوز ہوتے تھے کیونکہ ان کو پتہ ہوتا تھا کہ بچے یہ سب گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔
مزے کی بات ہے کہ آج تک کسی کو پتہ نہیں ہے کہ چمچمیر مانگے کے لئے بچوں کو اپنے بڑے بزرگ کہتے یا بچے خود ایسا کرتے لیکن بہت ہی دلچسپ اور مصروف ترین دن ہوتا تھا۔ اور بچے بچے کو علم تھا کہ شدید گرمی میں چمچمیر کیسے مانگا جاتا ہے اور پھر ملنے والی چیزوں سے کیا کیا کرنا ہے۔ یہ سب بہت ہی دیانتداری و ایمانداری اور سلیقے سے تمام چھوٹے بچے سرانجام دیتے تھے۔ شاید ان کی کی مخلصی ہی اللہ تعالی کو پسند آتی تھی جس کی وجہ سے ان کی مانگی ہوئی دعا بہت جلد قبول ہو جاتی تھی۔
اب پتہ نہیں کہ کسی گاؤں یا شہر میں یہ کھیل کھیلا جاتا ہے کہ نہیں لیکن جب بھی گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے تو بچپن کا چمچمیر یاد آ جاتا ہے۔