گاجربوٹی: جسے اکھاڑتے اکھاڑتے کاشتکار بھی ہار مان لیتے ہیں
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخوا کے نہری نظام سے سیراب ہونے والی فصلیں جڑی بوٹی پارتھینیم (گاجر بوٹی) سے متاثر ہوئی ہیں جس سے کاشتکاروں کی نا صرف فصلیں متاثر ہوئیں بلکہ وہ خود بھی جِلد کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو گئے ہیں۔
ماہرین زراعت کے مطابق گاجر بوٹی کو تلف کرنے کیلئے کوئی زہریلی دوا موجود نہیں البتہ کاشتکار اسے اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ کر ختم کر سکتے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ضلع چارسدہ کے علاقہ سرڈھیری سے تعلق رکھنے والے کاشتکار ضیاء جان کا کہنا تھا کہ سال دو ہزار دس کے سیلاب کے بعد ان کی فصلوں میں گاجر بوٹی اُگنا شروع ہوئی جس سے ان کی زرعی زمینیں بنجر ہونے لگی ہیں۔
گاجر بوٹی ساخت کے لحاظ سے ایک چھوٹا اور پتلا سو پودا ہے جس کے سر پر سفید، نرم اور چھوٹے چھوٹے پھول ہوتے ہیں۔ یہ پودا ڈیڑھ میٹر تک لمبائی رکھتا ہے اور جب اُگنے کے بعد دو انچ تک پہنچ جاتا ہے تو پھول دینا شروع کر دیتا ہے۔
ماہرین زراعت کے مطابق پھول دینے کے بعد اس سے مزید تخم جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں تو اس سے مزید جڑی بوٹیاں اُگتی ہیں اور اس کا تخم ہوا میں بڑی تیزی سے پھیلتا ہے۔
کاشتکار ضیاء جان نے بتایا، ” 2010 کے سیلاب کے بعد یہ جڑی بوٹی اُگنا شروع ہوئی، اس سے اب ہم اتنے پریشان ہیں کہ نہ صرف ہماری زمینیں بنجر ہو گئیں بلکہ جب ہم اسے اپنے ہاتھوں سے جڑ سے اکھاڑتے ہیں تو ہماری جلد کو خارش (کی بیماری) لگ جاتی ہے۔”
گاجر بوٹی ایک عام سا زہریلا پودا ہے، اس جڑی بوٹی کو بہت کم لوگ نام سے جانتے ہیں لیکن یہ عام طور پر سڑک کے کنارے، کسی فٹ پاتھ پر اور بالخصوص کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر پائی جاتی ہے۔
اس جڑی بوٹی کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کاشتکار بھی اس کو اکھاڑتے اکھاڑتے ہار مان لیتے ہیں۔ کاشتکار شاد محمد نے بتایا کہ وہ گزشتہ 12 سالوں سے اس جڑی بوٹی کا سامنا کر رہے ہیں باوجود اس کے کہ اس کے خلاف انہوں نے زہریلی ادویات کا استعمال بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بوٹی بہار کے موسم میں نمودار ہوتی ہے اور نومبر تک ہم اس کا سامنا کرتے ہیں۔ شاد محمد نے بتایا "اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم جب اپنی فصلوں کو یوریا، ڈی اے پی اور دیگر کھاد دیتے ہیں تو اس کی ساری طاقت فصل میں موجود گاجر بوٹی کھا لیتی ہے جس سے ہماری فصلیں متاثر ہو رہی ہیں اور ہمیں معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔”
خیبر پختونخوا میں زراعت پر تحقیق کرنے والے ترناب فارم کے سینئر ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر مسعود کا کہنا تھا کہ اگر بروقت جڑی بوٹی تلف کرنے کے اقدامات اُٹھائے جائیں تو امکان ہے کہ اس کی روک تھام ہو سکے ورنہ پھر ہاتھوں سے اس کو اکھاڑنا پڑے گا۔
ڈاکٹر مسعود کے مطابق جب نیا نیا پودا اُگ جائے تو اس وقت اگر کاشتکار نمک یا یوریا کا سپرے کرائے تو اس جڑی بوٹی پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اگر اس وقت اس کی روک تھام نہ کی گئی تو پھر ہاتھ سے اکھاڑنے کے سوا اس کا کوئی حل نہیں ہے۔
ان کے مطابق یہ گاجر بوٹی پورے خیبر پختونخوا اور بالخصوص چارسدہ، صوابی، مردان، پشاور اور نوشہرہ میں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہے جس سے فصلوں کو ملنے والی خوراک اور سورج کی حرارت متاثر ہوتی ہے اور اس کے اثرات سے پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ماہرین زراعت کے مطابق گاجربوٹی سے نہ صرف فصلیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ یہ انسانی صحت کیلئے بھی مضر ہے۔ اس کے پھول کے اُڑنے والے ذرات سانس کی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں جس کی روک تھام کیلئے عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔