بیگم کلثوم نواز کے نانا جو 52 سال تک پہلوانی میں ناقابل شکست رہے
تحریر غلام اکبر مروت
غلام محمد بخش المعروف گاما پہلوان 22 مئی 1878 کو برصغیر پاک وہند کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مسلمان کشمیری پہلوان خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان نے اپنے وقت کے اعلی پائے کے پہلوان پیدا کئے۔
گاما پہلوان کا قد 5 فٹ اور 8 انچ تھا جبکہ وزن 110 سے 113 کلوگرام تھا۔ وہ اپنے دور پہلوانی میں رستم ہند اور رستم زمانہ رہے۔ ان کی شادی وزیر بیگم سے ہوئی اور پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں کی ماں بنی۔ ایک بیٹے، اسلم پہلوان نے باپ کے فن پہلوانی کو آگے بڑھایا۔
گاما پہلوان نے پچاس سال تک چار سو کشتیاں لڑیں اور ناقابل شکست رہے جس کی وجہ سے انہیں رستم زماں بھی کہا جاتا ہے۔
برصغیر کے مشہور اور 52 سال تک ناقابل شکست رہنے والے گاما پہلوان کی گزشتہ روز 144ویں یوم پیدائش منائی گئی۔اس موقع پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال کئے جانے والے سرچ انجن گوگل نے بھی 22 مئی کو اپنے لوگو کی جگہ گاما پہلوان کا ڈوڈل بنا کر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
غلام محمد بخش عرف گاما پہلوان کی عمر ابھی چھ برس تھی کہ والد محمد عزیز بخش کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی تربیت نون پہلوان کے ذمہ ہو گئی۔ وہ گاما پہلوان کے نانا تھے۔ نانا نون پہلوان کے انتقال کے بعد ان کی تربیت ماموں عیدا پہلوان نے شروع کی یوں انہیں اپنے زمانے کے بڑے بڑے پہلوانوں سے تربیت اور چالیں سیکھنے کا موقع ملا۔
غلام محمد عرف گاما پہلوان کی عمر ابھی دس سال ہی تھی کہ 1888 میں ریاست جودھ پور کے مہاراجہ نے پہلوانی کا مقابلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ چونکہ گاما کی تربیت پہلوان خاندان میں جاری تھی اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ وہ بھی مقابلے میں حصہ لیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقابلے میں 400 سے زائد پہلوانوں نے شرکت کی۔ اس مقابلے میں 15 بہترین پہلوانوں کو منتخب کیا گیا جس میں غلام محمد عرف گاما پہلوان بھی شامل تھے۔ اس مقابلے اور انتخاب کے بعد انہوں نے مدھیہ پردیش کی ریاست دتیہ کے مہاراجہ کے زیرسایہ پہلوانی کی تربیت حاصل کرنا شروع کی۔
وہ اپنی روزمرہ تربیت کے دوران دیگر چالیس پہلوانوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔ وہ روزانہ 5000 بیٹھک اور تین ہزار پش اپس کرتے تھے۔ ان کی روزمرہ خوراک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روزانہ دو گیلن یعنی ساڑھے سات لیٹر دودھ پیتے تھے۔ جبکہ روزانہ چھ دیسی مرغ اور تقریباً آدھا کلو بادام ان کے کھانے کا لازمی جزو ہوتے تھے۔
1895 میں گاما پہلوان نے 17 سال کی عمر میں اپنے زمانے کے چیمپئن رحیم بخش سلطانی والا کو چیلنج کیا۔ ان کا تعلق بھی کشمیری پہلوان گھرانے سے تھا اور گوجرانوالہ میں رہتے تھے۔ وہ درمیانی عمر کے نوجوان اور سات فٹ قد کے حامل پہلوان تھے۔ رحیم بخش سلطانی والا اپنے زمانے کے مشہور پہلوان اور چیمپئن تھے۔ دونوں کے درمیان ایک گھنٹے تک کشتی کا مقابلہ جاری رہا لیکن کوئی بھی ہار نہیں رہا تھا اور یوں یہ مقابلہ برابر رہا۔ یہ مقابلہ ان کی زندگی میں بڑا موڑ ثابت ہوا اور اس کے بعد انہوں نے رحیم بخش سلطانی والا کے علاوہ ہر اس پہلوان کو شکست سے دوچار کیا جس نے ان سے مقابلہ کیا۔
انہوں نے ہندوستان کے پہلوانوں کو شکست دینے کے بعد دنیا بھر کے پہلوانوں سے کشتی لڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ لندن جا کر ہر جسامت کے پہلوانوں کو کھلا چیلنج دیا کہ کسی بھی جسامت کے تین پہلوانوں کو 30 منٹ کے اندر اندر شکست سے دوچار کریں گے لیکن کوئی بھی اکھاڑے میں نہیں آیا۔
سب سے پہلے امریکی پہلوان بینجمن رولر نے گاما پہلوان کا چیلنج قبول کیا، انہیں گاما پہلوان نے پہلے راؤنڈ میں ایک منٹ چالیس سیکنڈز میں چت کر دیا جبکہ دوسرے راؤنڈ میں 9 منٹ 10 سیکنڈز تک مقابلے کے بعد زمین پر پٹخ دیا۔ اگلے روز انہوں نے 12 پہلوانوں کو شکست دے کر ٹورنامنٹ میں جگہ بنائی۔
10 ستمبر 1910 کو عالمی چیمپئن شپ لندن میں سٹینیسلس زیبیز کے ساتھ مقابلہ کیا جس کی انعامی رقم 250 برٹش پاونڈز یعنی 22000 انڈین روپے تھی۔ مقابلہ تین گھنٹے جاری رہنے کے بعد برابر قرار پایا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز غیرمنقسم ہندوستان کے اب تک کے سب سے بڑے ریسلنگ کنگ غلام محمد بخش (1878 – 1960) عرف گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔
ایک اور روایت کے مطابق پورے ہندوستان میں معروف پہلوانوں کو شکست دینے کے بعد انہوں نے یورپ اور انگلستان کے پہلوانوں کو مقابلے کی دعوت دی۔ انہوں نے اپنے پہلوان بھائی امام بخش کے ہمراہ کئی یورپی شہروں میں انگریز اور یورپی پہلوانوں کو شکست دی۔ وہ 1927 تک ناقابل شکست رہے۔ 1928 میں انہوں نے ذیش نامی پہلوان کو چند سیکنڈز میں ہرا کر دنیا بھر کے پہلوانوں پر اپنی پہلوانی کی دھاک بٹھائی۔
1947 میں پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور منتقل ہو گئے اور یہاں لاھور میں موہنی روڈ پر سکونت اختیار کی۔ وہ 22 مئی 1960 کو 82 سال کی عمر کو پہنچے اور اگلے روز 23 مئی 1960 کو انتقال کر گئے۔ انہیں لاھور کے پیر مکی مزار کے قریب قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔
ان کی زندگی 22 مئی کو شروع ہوئی اور 23 مئی کو اختتام کو پہنچی۔