میٹرک امتحانات: نجی سکول کی طالبات پر ممتحنین کی مہربانیاں کیوں؟
ناہید جہانگیر
ڈیوٹی پر مامور اساتذہ کے کمرا امتحان میں سرکاری طالب علموں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے سلوک کا انکشاف ہوا ہے۔
میٹرک کے سالانہ امتحان میں سرکاری سکولوں کے تقریباً تمام طالب علم شکایت کر رہے ہیں کہ عملہ کے رویے میں ان کے لئے کافی سختی جبکہ پرائیویٹ سکول کے طالب علموں کے لئے کافی نرمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
عائشہ (فرضی نام) جو جماعت نہم کی کافی ذہین طالبہ ہیں اور پشاور کے ایک سرکاری سکول کے امتحانی ہال سے امتحان دے رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایک تو جتنا بھی سٹاف ہے دوران پرچہ ہال میں سب گھریلو مسائل اور گپ شپ لگاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اور ان کی ساتھی طالبات کافی ڈسٹرب ہوتی ہیں، بار بار اساتذہ کی گپ شپ کی طرف دھیان چلا جاتا ہے اور جو کچھ یاد کیا ہوتا ہے سب بھول جاتا ہے۔
عائشہ کو دوسری شکایت یہ ہے کہ پرائیویٹ سکول کی طالبات کے مقابلے میں سرکاری سکول کی طالبات کے ساتھ اساتذہ کے رویے میں بھی کافی فرق ہے، ”جہاں سوال نامے میں سمجھ نہیں آتی پوچھنے پر سٹاف کی جانب سے کافی ڈانٹ پڑ جاتی ہے اس لئے ڈر کے مارے اب پوچھنا ہی چھوڑ دیا ہے، امتحانی عملہ کو دوران ڈیوٹی پرائیویٹ سکول مالکان کی جانب سے کافی مراعات سے نوازا جاتا ہے اس لئے تو ان کی سٹوڈنٹس کو کچھ نہیں کہا جاتا۔”
فائزہ (فرضی نام) بھی پشاور کی سرکاری سکول کی طالبہ ہیں اور اس سال دسویں جماعت کا امتحان دے رہی ہیں، وہ بھی شکایت کر رہی ہیں کہ ان کی کوئی بھی استانی ہال میں نہیں آتی جو ان کو صرف سوال نامہ پڑھ کر سمجھا سکے جبکہ ان کے ساتھ جتنی بھی پرائیویٹ سکول کی طالبات ہیں سب کے ساتھ اپنی اپنی استانیاں ہوتی ہیں جو ہال میں آتی ہیں اور پرچہ سنا کر چلی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے سکول اساتذہ کا کہنا تھا کہ ہال میں جو ایگزمنر/ممتحن ہیں وہ ہال میں کیا ہال کے آس پاس گھومنے پر بھی اعتراض کرتی ہیں، یہ بات سچ ہے کہ پرائیویٹ سکول کی استانیوں کو ہال میں چھوڑا جاتا ہے جبکہ ان پر کافی سختی کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ سکول کی استانیاں یہ نہیں کہ اپنی بچیوں کو نقل دیتی ہیں، وہ بھی صرف طالبات کو سمجھا کر نکل جاتی ہیں لیکن ان کی اپنی طالبات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، وہ اپنے ہی سکول میں موجود کسی بھی ٹیچر کی جانب سے کوئی بھی حوصلہ افزائی، جو ان کا حق ہے، نا پا کر شکایت کرتی ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ پرائیویٹ سکول کی جانب سے کافی مراعات دی جاتی ہیں جبکہ سرکاری سکول کی جانب سے صرف چائے کے علاوہ کچھ نا ملنے کی وجہ سے بھی عملے کی جانب سے سختی کی جاتی ہے، سکول انتظامیہ نے کہا کہ جتنا ان سے ہو سکتا ہے وہ ریفریشمنٹ دیتے ہیں لیکن جہاں تک پرائیویٹ سکول کا تعلق ہے تو انہوں نے پہلے سے امتحانی فیس کے ساتھ اضافی رقم لی ہوتی ہے لیکن سرکاری سکول کو نا تو انتظامیہ کی جانب سے اجازت ہے کہ وہ اضافی رقم لیں اور وہ خود بھی یہ نہیں کر سکتیں کیونکہ گورنمنٹ سکول کے زیادہ تر طالب علموں کا تعلق مڈل فیملی سے ہوتا ہے، والدین مشکل سے بچوں کے تعلیمی اخراجات پوری کرتے ہیں تو کیسے ایک ناجائز کام کے لئے غریب والدین کو مجبور کیا جائے، بہت ہی نامناسب ہے کہ صرف امتحانی عملہ کو خوش رکھنے کے لیے کسی کو تکلیف دی جائے۔
دوسری جانب سرکاری سکول کی ایک استانی نے نام نا بتانے کی شرط پر بتایا کہ سپرانٹنڈنٹ نے بہت سخت لہجے میں کہا ہے کہ جو بھی اندر آئی تو اوپر ان کی کافی پہنچ ہے، وہ اسے دیکھ لیں گی اس لئے سٹاف سے کوئی بھی ٹیچر ہال میں نہیں جاتی، لیکن گلہ تو ہے کہ پرائیویٹ سکول ٹیچرز پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ان پر کیوں ہے، اس کی وجہ ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح نجی سکول ٹیچرز اپنی طالبات کو سمجھا کر چلی جاتی ہیں اسی طرح ان کو بھی اجازت دینی چاہئے تھی۔