لائف سٹائل

خواجہ سراء عائشہ نے جائیداد میں حصہ لے کر مثال قائم کر دی

کائنات علی

”ساری زندگی گھر والوں کو پالنے کے باوجود جب تقسیم اور مال و جائیداد میں حصے کا وقت آیا تو سب نے مجھے وراثت میں حصہ دینے سے انکار کر دیا۔”

یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا عائشہ کا جس نے اپنے خاندان سے وارثت میں حصہ لینے کے لئے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی تھی۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں عمومی طور پر وارثت میں حصہ لینا خاص طور پر خواتین کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس مسئلے کو لے کر عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔

دوسری طرف اگر خواجہ سرا برادری کی بات کی جائے تو امتیازی و ناروا سلوک اور جنسی تشدد کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں، خواجہ سرا کا اپنے والدین سے وارثت میں حصہ مانگنا خود کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے اور بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ ایک خواجہ سرا نے اپنے خاندان سے وارثت میں حصہ لیا ہو۔

انہی میں سے ایک دیر بالا سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ خواجہ سرا عائشہ بھی ہے جس نے اپنے والدین سے وارثت میں حصہ لے کر ایک مثال قائم کر دی ہے۔

ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے عائشہ کا کہنا تھا کہ اس نے ساری زندگی اپنے گھر والوں کو پالا ہے اور لاکھوں ان پر خرچ کئے لیکن دکھ تب ہوا جب تقسیم کے وقت خاندان والوں نے اس کو جائیداد میں حصہ دینے سے صاف انکار کر دیا، ”میرے گھر میں صرف میری امی اور بہن میرا ساتھ دے رہی تھیں باقی سب، بشمول میرے والد کے، میرے خلاف تھے اور حصہ مانگنے پر مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔”

عائشہ کے مطابق وارثت میں حصہ لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے بھائی اور بھابھی تھے جو کسی صورت بھی مجھے میرا حصہ دینا نہیں چاہتے تھے، ”لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور نہ ہی ان کی دھمکیوں میں آئی، میری مسلسل جدوجہد کی وجہ سے میرے خاندان والے اس بات پر راضی ہوئے کہ مجھے میری بہن کے برابر حصہ ملے گا لیکن میری امی یہ نہیں مانیں اور بھائی کے برابر حصہ لینے کے لئے میرا ساتھ دیا۔”

عائشہ نے مزید بتایا کہ جب وہ والدین سے وارثت میں حصہ لے رہی تھی تو پہلے تو وہ مان ہی نہیں رہے تھے اور جب مان لیا تو پھر اس کو عورت کے برابر حصہ دے رہے تھے جو اس نے نہیں مانا اور آخرکار وہ اپنے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور اپنے بھائی کے برابر حصہ لیا۔

ایک سوال کے جواب میں عائشہ نے بتایا کہ گھر والوں سے مسلسل اسرار کرنے کے باوجود جب وہ اس کو حصہ دینے کو تیار نہیں تھے تو میں نے قانونی کارروائی کی دھمکی دی اور ایک وکیل سے اس سلسلے میں رابطہ کیا، ”لیکن میرے گھر والے اور خاص طور پر میری امی نے مجھے معاملے کو عدالت تک لے جانے سے منع کیا کیونکہ کہ میرا یہ قدم میرے گھر والے اپنے لیے ایک شرم سمجھتے تھے، ایک طویل عرصے تک لڑنے کے بعد خاندان کے ایک جرگے نے حصہ دلایا جو کہ میرے بھائی کے حصے کے برابر ہے، ‘والدین سے ملا حصہ اب لاکھوں کی قیمت رکھتا ہے اور میں کسی صورت اس کو ضائع نہیں کروں گی کیونکہ میں اب بھی اپنے والدین اور بہنوں کو پالتی ہوں اور ان کے سارے اخراجات اٹھاتی ہوں اور یہ سب کر کے میرے دل و روح کو ایک تسکین ملتی ہے۔”

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے تیمور کمال کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا میں خواتین کیلئے وارثت میں حصہ لینا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جبکہ خواجہ سراء تو اپنے اس حق کے حصول کے لئے بات بھی نہیں کر سکتے، ”شاید بہت کم ہی ایسے خواجہ سرا ہوں جنہوں نے اپنے والدین سے وارثت میں حصہ حاصل کیا ہو کیونکہ ایسا کرنا ان کے لئے خود کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترداف ہے۔”

خواجہ سراؤں کے وارثت میں حصہ لینے سے گھبرانے کی وجہ بتاتے ہوئے تیمور نے بتایا کہ ایک تو پہلے ہی سے گھر والے خواجہ سراؤں کو قبول نہیں کرتے اور اگر حصہ بھی مانگیں تو گھر والے پھر ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔

دوسری جانب مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے مفتی زاہد شاہ کا کہنا ہے کہ شرعی حیثیت سے خواجہ سراؤں کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ نمبر ایک اس میں مرد کی علامت ظاہر ہوتی ہیں تو اس صورت میں اس کا وارثت کا حصہ مرد والا ہے اور اس کو مرد کے برابر حصہ دینا ضروری ہے، ”نمبر دو اگر اس میں عورتوں کی نشانی ظاہر ہو جائے تو اس کو عورت کے برابر حصہ دیا جائے گا جو کہ شریعت میں صاف حکم ہے۔”

مفتی زاہد شاہ کے مطابق تیسری صورت میں جنس کا معلوم کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایسی علامات نہیں پائی جاتیں جن سے یہ پتہ چلے کہ اس میں مرد کی علامات زیادہ ہیں یا عورت کی تو اس کو خنساء مشکل کہا جاتا ہے جس میں شریعت کے مطابق بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ احتیاط اس لئے ضروری ہے کہ کسی کا حق مارا نہ جائے، اس معاشرے میں عمومی طور پر خواجہ سراؤں کو وارثت کو حصہ نہیں دیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حرام ناجائز طریقے سے پیسے کمانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

سماجی کارکن قمر نسیم کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اور خاص طور پر کے پی میں خواجہ سراؤں کے لیے وارثت میں حصہ لینا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

قمر نسیم کا کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ، 2018 کے مطابق خواجہ سرا مرد کو مرد کے برابر اور خواجہ سرا عورت کو عورت کے برابر وارثت میں حصہ ملے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نام سے ہی ایک قانون ہمارے پاس ہے لیکن اس قانون کو کوئی عملی جامہ ابھی تک نہیں پہنایا گیا ہے جو کہ افسوس کی بات ہے۔

قمر زمان نے کہا کہ اس معاملے میں کے پی اسمبلی میں کچھ اراکین کی طرف سے آواز اٹھائی گئی ہے لیکن اب بھی اس پر بہت کام کرنے کو ہے۔

ایک سوال کے جواب میں قمر نسیم کا کہنا تھا کہ ایک مسئلہ خواجہ سراؤں کی طرف سے بھی بنایا گیا ہے کہ وہ جب بھی جائیداد میں حصہ لیتے ہیں تو وہ مردوں کے برابر مانگتے ہیں جو ان کے گھر والے کسی صورت بھی نہیں مانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں قانون رہنمائی کرتا کہ وارثت مانگنے کے وقت خواجہ سراؤں کا طبی معائنہ ہو گا تاکہ یہ پتہ چلے کہ حصہ مانگنے والا خواجہ سرا مرد خواجہ سرا ہے یا عورت لیکن اس کو ماننے سے بھی خواجہ سرا انکار کرتے ہیں۔

ایڈوکیٹ محمد فیاض مہمند نے اس حوالے سے بتایا کہ خواجہ سراؤں کے ساتھ معاشرے کا رویہ ویسے بھی بہت تشویشناک اور افسوسناک ہے اور ان کو معاشرے میں کبھی بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ہے، خواجہ سرا بھی اللہ کی ایک مخلوق ہیں اور اللہ نے ان کو اس شکل و صورت میں بنایا ہے جس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تو پھر معاشرے کو بھی ان کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔

ایڈوکیٹ محمد فیاض کے مطابق خواجہ سراؤں کو وارثت کے حوالے سے بہت گھمبیر مسائل کا سامنا ہے اور اس ضمن میں عدالتیں بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ اس محروم طبقے کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں۔

ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کیا ہے؟

ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا باب تعریفوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اور کلیدی اصطلاحات جیسے کہ "ٹرانس جینڈر شخص” کے لیے وہی فراہم کرتا ہے۔ "صنفی شناخت” اور "جنسی اظہار۔”

دوسرا باب صنف کی قانونی شناخت پر توجہ دیتا ہے، اور خواجہ سراؤں کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ سرکاری ریکارڈ میں اپنی خودساختہ جنس کا اندراج کرائیں۔

تیسرا باب بعض اعمال کی ممانعت پر مشتمل ہے، اور اس میں ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف امتیازی سلوک کی ممانعت اور خواجہ سراؤں کو ہراساں کرنے کی ممانعت شامل ہے۔

چوتھا باب ریاست پر کچھ ذمہ داریاں عائد کرتا ہے، جن میں شامل ہیں: خواجہ سراؤں کے لیے تحفظ کے مراکز اور محفوظ مکانات کا قیام؛ خواجہ سراؤں کے لیے علیحدہ جیل اور حراستی سیل قائم کرنا؛ سرکاری ملازمین، خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کے لیے وقتاً فوقتاً حساسیت اور بیداری پیدا کرنا؛ ٹرانس جینڈر افراد کے لیے روزی روٹی کو آسان بنانے، فروغ دینے اور مدد فراہم کرنے کے لیے خصوصی پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں کی تشکیل؛ اور ٹرانس جینڈر لوگوں کو ترغیبات، آسان قرض کی اسکیمیں اور گرانٹس فراہم کر کے چھوٹے کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دینا۔

پانچواں باب خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ہے، جس میں دیگر چیزوں کے ساتھ وراثت کا حق بھی شامل ہے؛ تعلیم کا حق، ملازمت کا حق، جائیداد کا حق اور عوامی مقامات تک رسائی کا حق۔ اس باب میں ایک عام شق بھی شامل ہے جس کی توثیق کی گئی ہے کہ پاکستان کے آئین کے ذریعہ فراہم کردہ تمام حقوق خواجہ سراؤں کے لیے بھی دستیاب ہوں گے۔ آخر میں، پانچویں باب میں ایک نیا مجرمانہ جرم متعارف کرایا گیا ہے، جس کا تعلق "کسی بھی ٹرانس جینڈر شخص کو بھیک مانگنے کے لیے” ملازمت دینے، مجبور کرنے یا استعمال کرنے سے ہے۔

چھٹا باب قانون کے تحت نفاذ کے طریقہ کار کا تعین کرتا ہے، اور یہ بتاتا ہے کہ عام فوجداری اور دیوانی قانون کے تحت دستیاب علاج کے علاوہ، متاثرہ خواجہ سرا وفاقی محتسب، خواتین کی حیثیت کے لیے قومی کمیشن (این سی ایس ڈبلیو) کے پاس شکایات درج کر سکتے ہیں۔

آخر میں، ساتویں باب میں متعدد عمومی دفعات شامل ہیں، جن میں سے ایک حکومت کو قانون کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے قواعد بنانے کا اختیار دیتی ہے، اور ایک ایسی شق جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے لیے قانون کا کسی دوسرے قانون پر زیادہ اثر پڑے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button