لڑکی کی مرضی کے بغیر کیا نکاح ہو سکتا ہے؟
انیلا نایاب
بہت دنوں کے بعد شبقدر اپنے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو ایک بریکنگ نیوز سننے کو ملی، ہماری ایک رشتے دار نے بتایا کہ ایک مہینے میں دو لڑکیاں بھاگ گئیں وہ بھی شادی کے دنوں میں؛ نادیہ (فرضی نام) کی بھابھی کومل (فرضی نام) مہندی والے دن جبکہ قیصر (فرضی نام) کی سالی شادی کے چند دن بعد گھر سے بھاگ گئی۔ یہ سن کر کافی حیران ہوئی۔ حیرانگی کے ساتھ ساتھ دل اُداس بھی ہوا۔۔
ہمارے معاشرے میں، یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم اور باشعور خاندانوں میں بھی اس بات کو بے حد ناپسند کیا جاتا ہے اگر کوئی لڑکی اپنی پسند سے شادی کی خواہش ظاہر کرے یا گھر والوں کی جانب سے طے کردہ رشتہ سے انکار کرے۔ حالانکہ اسلام اور قانون دونوں نے اجازت دی ہے۔ ہھر بھی ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ پسند کی شادی کو بے غیرتی تصور کرتے ہیں۔
کومل جب چلی گئی تو پتہ چلا کہ اس نے گھر میں کئی بار اس رشتے ہر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا، بار بار والدہ سے التجا کی تھی کہ وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہے لیکن گھر کے بڑے بزرگوں نے اس کا رشتے طے کر دیا۔ منگنی کے بعد بھی کئی بار منگنی توڑنے کا مطالبہ کیا لیکن گھر کی خواتین نے اس کو مار پیٹ کر چُپ کرایا دیا تھا۔ جب شادی کی تاریخ طے ہوئی پھر بھی کافی روئی، کوئی بھی نہیں مانا۔ لڑکے والے جب دلہن کے گھر مہندی لے کر گئے تو پتہ چلا کہ لڑکی گھر پر نہیں ہے۔
مہندی والے دن لڑکی کا بھاگ جانا صرف لڑکی کے گھر والوں کے لیے نہیں بلکہ لڑکے والوں کے لیے بھی شرمندگی کا سبب بنا۔ بلکہ مہندی پر گئے سب لوگوں کی کھسر پھسر نے بھی گھر والوں کو کافی شرمندہ کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے۔
ہر ایک کی سوچ دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہ بڑوں کی غلطی ہوتی ہے جو کہ بچوں کے رشتے طے کرتے وقت ان کی رضامندی کا خیال نہیں کرتے۔
دوسری جانب قیصر کی سا لی شادی کے چند دن بعد بھاگ گئی۔ ایک لڑکی کی مرضی کے بغیر نکاح ہو سکتا ہے؟ کیا زبردستی نکاح کرنے سے نکاح ہو جاتا ہے؟ قیصر کی سالی بھی زبردستی بیاہی گئی۔ شادی کے کچھ دن بعد لڑکی نے دلہے سے فرمائش کی باہر پارک لے جانے کی، دلہا خوشی خوشی دلہن کو پارک لے گیا۔ دلہن نے آئس کریم لانے کو کہا، آئس کریم لانے کے بعد جب دولہا آیا تو دلہن غائب تھی، بہت ڈھونڈا لیکن نہ ملی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلا کہ لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
دیکھا جائے تو ْآئے دن کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی کر رہی ہے جیسے حال ہی میں دعا ظاہر نامی لڑکی کی خبر ٹی وی پر چلتی رہی۔ یہ مسئلہ کسی ایک دعا کا نہیں اب تو ہر شہر اور گاؤں میں یہ مسئلہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ موبائل کا بے جا یا غلط استعمال تقریباً اس کی اصل وجہ ہے۔ موبائل تو ضرورت کی چیز ہے لیکن نوجوان نسل اس کا استعمال غلط طریقے سے کر رہی ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو آج کل کے ڈراموں میں ماں باپ کی مرضی کے خلاف جوڑوں کو پسند کی شادی کرتے دکھایا جاتا ہے۔ نوجوان نسل نے پسند کی شادی کا سنا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ پسند کی شادی کہتے کسے ہیں۔
ماں باپ اگر کسی جگہ بچی کا رشتہ کرنا چاہیں تو اس سے پہلے بیٹی سے پوچھنا ضروری ہے۔ اور اگر بچی یا بچے کا دل ہو یا خواہش کسی سے شادی کی تو وہ ماں یا باپ میں سے کسی کو بتا دے۔ والدین اور بچوں میں اتنا گیپ نہیں ہونا چاہیے کہ بچے دل کی بات بھی نا بتا سکیں۔ ماں باپ میں سے کسی ایک کو تو بچوں کے اتنا قریب ہونا چاہیے کہ بچے آسانی سے اپنے دل کی بات بتا سکیں۔
اولاد کو بھی چاہیے کہ جس ماں باپ نے اس کو بڑا کیا، اتنا خیال رکھا تو ہر قدم اٹھانے سے پہلے ایک بار ضرور سوچنا چاہیے۔ والدین کی رضا اللہ کی رضا ہے تو کوشش کریں ہمیشہ کہ اللہ کو راضی رکھیں۔