ماں خدا کا رحم، وہ دنیا میں جنت کی سفیر۔۔!
عیشا صائمہ
کائنات کا سب سے انمول تحفہ والدین ہیں۔ اور والدین میں ماں وہ ہستی ہے جو ہر طرح سے اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے۔ باپ سارا دن گھر سے باہر اپنے بچوں کے لئے کماتا نظر آتا ہے جب کہ ماں بچوں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھتی ہے، ان کی جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تربیت کا بھی اہتمام کرتی ہے، ان کو بولنا سکھانے سے لے کر کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کے تمام آداب سکھاتی ہے اور اس کی ہر طرح سے کوشش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد کو زندگی کے کسی موڑ پہ ناکامی کا سامنا نہ کرے۔
ماں اپنی اولاد کی کامیابیوں کے لئے ہر وقت دعا گو ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ اپنی خواہشات اپنی ذات تک کو بھول جاتی ہے، اولاد ہی اس کی خوشی کا محور و مرکز ہوتی ہے، اور یہ ماں ہی ہے جو اپنی اولاد کے لئے اپنی ہستی کو فنا کر کے اولاد کی خوشیوں اور سکون کی بقا کی ضامن بن جاتی ہے۔
آج ہم نے اس ہستی کے لئے بھی ایک دن کو مخصوص کرنے کا اہتمام کر لیا ہے حالانکہ یہ تو مغرب کی روایت ہے جہاں بچے بڑے ہو کر والدین سے الگ ہو جاتے ہیں اور انہیں اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر سال میں ایک بار ان سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں۔ اسلام میں جبکہ ایسا کوئی تصور نہیں کیونکہ اسلام نے ماں کو وہ مقام دیا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ ہم اپنی ساری زندگی بھی ان کی خدمت میں لگا دیں تو اس ہستی کا قرض نہیں اتار سکتے۔
ماں جیسی ہستی کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے: ایک شخص نے رسول اکرمﷺ سے دریافت کیا، یا رسول اللہ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا ’’تیری ماں‘‘ پھر پوچھا، پھر کون؟ فرمایا ’’تیری ماں‘‘ پھر عرض کیا، اور کون؟ فرمایا ’’تیری ماں‘‘ تین دفعہ آپ نے یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا ’’تیرا باپ۔۔‘‘
اس فرمان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماں سے ہر وقت، ہر دن، ہر پل محبت ہماری ذات کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ وہ ہستی ہے جس کی بے لوث محبت اور قربانیوں کو ہم ایک پل کے لئے بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ تو اس ہستی سے محبت کے تقاضے ایک دن میں پورے نہیں ہو سکتے بلکہ اس کے لئے اپنی پوری زندگی اس عظیم ہستی کی خدمت اور محبت میں گزارنے سے ہم شاید کچھ حق ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس لئے مغرب کی تقلید کی بجائے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزاریں، انہیں اپنی محبت کا احساس دلائیں، ان کے ساتھ گزرا ہوا وقت نہ صرف دنیا میں انمول ہے بلکہ آخرت میں بھی باعث نجات ہے۔ سو ماں کو سلام عقیدت روز پیش کریں، انہیں ان کے قیمتی ہونے کا احساس دلائیں، یہ ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
ماں کے حوالے سے مشہور شخصیات کے اقوال بھی ماں کے عظیم ہونے، اس کی عظمت کو ماننے میں بہت اہم ہیں جیسا کہ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے اسرار خودی میں اپنی فارسی نظم ’’در معنی ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است‘‘ میں ماں کی عظمت کے حوالے سے کہا ہے کہ: ’’اسلام ماں کے منصب اور اس کے حفظ و احترام کا ضامن ہے، اگر ٹھیک طور پر دیکھو تو ماں کا وجود رحمت ہے، اس کی شفقت پیغمبرانہ شفقت جیسی ہے جس سے قوموں کی سیرت سازی ہوتی ہے، ماں کے جذبہ محبت کی بدولت ہماری تعمیر پختہ تر اور اس کی پیشانی کی سلوٹوں میں اولاد کی تقدیر پنہاں ہوتی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ: ع
ماں خلوص و مہر کا پیکر محبت کا ضمیر
ماں خدا کا رحم، وہ دنیا میں جنت کی سفیر
شیخ سعدیؒ نے ماں کی محبت کے حوالے سے کہا کہ ’’محبت کی ترجمان اگر کوئی ہے تو وہ صرف ماں ہے۔‘‘ اس لئے ہمیں آج اپنے والدین خصوصاً ماں کی عظمت کو سمجھنا چاہیے کیونکہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے اور اس جنت کے حقدار ہم تبھی ہوں گے جب ہم ہر پل ہر لمحے ان سے محبت کا ثبوت دیں گے اور ان کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے۔ یوں والدین کے لئے ایک دن کی بجائے اپنی زندگی کا ہر پل، ہر لمحہ ان سے محبت، پیار اور حسن سلوک سے عبارت کریں تاکہ ہمیں کوئی ملال نہ رہے نہ ہی ان کے جانے کے بعد کسی قسم کا پچھتاوا ہماری زندگیوں میں رہ جائے کیونکہ ہماری ساری کامیابیاں، عزتیں خوشیاں ماں کی بدولت ہیں۔
یہ کامیابیاں عزت یہ نام تم سے ہے
اے میری ماں مرا سارا مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب
مرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
گلی گلی میں جو آوارہ پھر رہا ہوتا
جہان بھر میں وہی نیک نام تم سے ہے
کہاں بساط جہاں اور میں کمسن و ناداں
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے
جہاں جہاں ہے مری دشمنی سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے مرا احترام تم سے ہے
اے میری ماں مجھے ہر پل رہے تمہارا خیال
تم ہی سے صبح میری میری شام تم سے ہے
یہ کامیابیاں عزت یہ نام تم سے ہے
اے میری ماں مرا سارا مقام تم سے ہے