محمد سہیل مونس
ملکی تاریخ میں ماہ اپریل سن دو ہزار بائیس کو کئی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہ مہینہ ہر لحاظ سے منفرد اور انگنت قسم کے واقعات سے پُر پڑا ہے۔ ہم نے اس ماہ سابقہ حکومت کی غیراخلاقی اور غیرسیاسی چالیں دیکھیں جن کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر، ہم نے رات گئے تک قومی اسمبلی کے اجلاسوں کو بلا کسی مقصد کے حصول کے کھینچتے ہوئے دیکھا۔
ہم نے آئین کی شق پانچ کو عدم اعتماد لانے والوں کے خلاف اس طرح استعمال کرتے دیکھا جیسے بچے گڈا گڈی کا کھیل کھیل رہے ہوں۔ ہم نے ایک وزیر اعظم کا جھوٹ پہ جھوٹ بولنا بھی ملاحظہ کیا۔ ایک ایسا وزیر اعظم جو جن بیساکھیوں کے سہارے آیا تھا انہی کو برا بھلا کہتے سنا گیا۔ ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کسٹوڈئین آف دی ہاؤس کی بجائے وزیر اعظم کا ایک ادنی پیادہ بنتے دیکھا، ہم نے بعد میں ان کی شرمندگی بھی دیکھی اور صحافیوں کو گالیاں دیتے ہوئے بھی سنا۔ ہم نے دوران اجلاس حکومت وقت کی تمام تر بھونڈی تراکیب کو بھی دیکھا اور حزب اختلاف کے صبر و برداشت کا نظارہ بھی کیا۔ ہم نے دوران اجلاس وزیر اعظم ہاؤس میں طے ایک دوسرے اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی کی شرکت بھی ملاحظہ کی اور پھر وہاں ایک ہیلی کاپٹر آدھ کا اترنا بھی سنا اور اس کے فوراً بعد رات گئے عدالتوں کا کھلنا بھی ملاحظہ کیا۔
ان واقعات کے فوراً بعد جیل کی گاڑیوں کا ان حساس علاقوں میں گھومنا پھرنا بھی دیکھا اور بالآخر اس تمام قصے کا ڈراپ سین بھی دیکھا کہ کس طرح لاتوں کے بھوتوں کو لاتوں سے ہی سمجھایا جاتا ہے۔
ہم نے اس ڈرامہ کے بعد پنجاب اسمبلی میں پنجابیوں کی دھینگامشتی بھی ملاحظہ کی جس میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ کے منصب کے لئے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آگے لانا تھا۔ اس اسمبلی کے پہلے شہزادے بزدار صاحب تھے جس کو سیاسی جوڑ توڑ کے نتیجہ میں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور عمران خان نے اپنی بادشاہت بچانے کے لئے اس کی قربانی دے کر بقول ان کے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو وزیر اعلیٰ کا منصب سونپنے کا عندیہ دیا تھا جبکہ چوہدری سرور جیسے شخص کو پنجاب کی گورنری سے ہٹا کر ایک نئے منظور نظر فرد کو لگا دیا گیا تھا۔ پنجاب اسمبلی کے حالات و واقعات آپ نے ٹی وی سکرینز پر ملاحظہ کئے ہوں گے جن میں پرویز الٰہی صاحب کے thumbs up کے اشارے اور غنڈوں کو ایوان میں لے کر آنا اور ہلڑ بازیاں کس کو یاد نہیں ہوں گی۔
پھر اس کے بعد بغیر سیلنڈر کے آکسیجن ماسک لگا کر پڑے رہنا اور ٹوٹے ہوئے ہاتھ کا ماتم کرنا جس کو پائیوڈین کی مدد سے جوڑا گیا تھا۔ اسمبلی اجلاس میں لوٹوں کا در آنا اور ڈپٹی اسپیکر کو گالیاں دینا، بال کھینچنا اور مارنا وغیرہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
سچ صدر صاحب کی مستعدی تو بھول گیا جس نے صدر پاکستان نہیں بلکہ خادم عمران بن کر اسمبلی برخواست کرنے کے احکامات جاری کرنے کا پالن کیا۔ ہم نے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتے بھی دیکھ لی، وزیر اعظم کو گھر جاتے بھی دیکھ لیا، پنجاب اسمبلی کے نئے قائد حزب اقتدار بھی ملاحظہ کر لیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ شہباز شریف صاحب کو اچکن بھی پہنتے دیکھ لیا۔
اس کے علاوہ بھی کئی واقعات سامنے آئے جیسے ایک نام نے چند دنوں میں بام عروج دیکھا، محترمہ گوگی صاحبہ! پھر توشہ خانہ کی بحث چھڑی پھر بنی گالا کی سڑک کا معاملہ سامنے آیا۔ ایک موقع پہ چوہدری فواد کا یہ کہنا بھی سماعتوں نے سنا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نہ روٹھتی تو ہم آج اقتدار میں ہوتے۔
ہم نے عمران خان صاحب کے بڑے بڑے جلسے بھی ملاحظہ کئے جن میں انھوں نے امریکہ کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا حتی کہ فوج کی عزت بھی اپنے اوپر لازم قرار دی لیکن گاہے بہ گاہے چھیڑخانیاں کرتے رہے مگر اپنے آپ کو پیغمبر کے رتبہ پر فائز کرنے والے بیانات کی مذمت مولانا طاہر اشرفی نے بھی کی اور دیگر جید علماء نے بھی ان کو اپنی زبان کو لگام دینے کا مشورہ دیا۔
اس سیاسی ہلچل کے علاوہ ہم نے افغانستان میں پاکستانی طیاروں کی دراندازی بھی دیکھی جس میں وزیرستان کے علاقے کے پناہ گزین ہی نشانہ بنے اور چالیس سے زائد افراد لقمئہ اجل بنے۔ اس واقعہ سے قبل ہم نے اسی سرحدی علاقہ میں سات فوجی جوانوں کو شہید کرنے کی خبریں بھی سنیں، ہم نے کوئٹہ میں بھی خونی جھڑپیں ملاحظہ کیں اور چند دن قبل ایک بلوچ تعلیم یافتہ خاتون کو کراچی میں خودکش دھماکہ کرتے دیکھا۔
ہم نے سیاسی راہنماؤں پر افطار پارٹیوں اور عوامی مقامات پر حملے اور گالم گلوچ تو دیکھی ہی تھی لیکن اس کی یہ انتہاء کبھی پہلے نہیں دیکھی تھی کہ لوگ روضہ رسول کی جھالیوں کے عقب میں ایک دوسرے پر دشنام طرازیاں کریں گے، ملک کا نام اور وہاں پہ موجود لوگ سب تو گئے بھاڑ میں لیکن کسی کو اس ہستی کا بھی خیال نہیں آیا کہ جن کے در پہ یہ موجود تھے۔
ہم ایک لمحہ کے لئے ان تمام واقعات کا اگر جائزہ لیں تو کہیں سے بھی ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم انسان کہلانے کے لائق ہیں؟ یہ ہماری جو اب کی حالت ہے یہ ایسی نہیں بنی ہم اشرف المخلوقات کہلانے کے بھی لائق نہیں، ہم نے ان ساری اقدار اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے جو کبھی ہماری پہچان ہوا کرتے تھے۔
سیاسی منظر نامہ دیکھیں تو اس سے پہلے جو حکومت میں تھے ان کی کون سی بات صحیح تھی، کیا کارنامے کر گزرے جس کی وجہ سے عوام کو ریلیف ملا؟ کون سے ایسی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں جس کی وجہ سے ان کی پارٹی کے لوگ مخالف جماعت کے لوگوں سے بحث و تکرار سے بھی آگے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ موجودہ حکمران کیا پہلے کے آزمائے ہوئے نہیں کہ اب یہ کوئی سا تیر مار کر عوام کی بے چینیاں دور کر دیں گے، یہ سب آپس میں ملے ہیں اگر یقین نہیں آتا تو سادہ سی بات سن لیں یقین آ جائے گا۔
مسلم لیگ اور پی پی پی کو باریاں دینے والے کون تھے؟ فوج، عمران کو لائم لائٹ میں لانے والے کون تھے؟ فوج، رات کے بارہ بجے عدالتیں کس کے اشارہ پر کھلیں؟ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے جانے والے لوٹے کس کے اشارہ پر آتے جاتے ہیں؟ فوج کے، مذہبی جماعتوں کو بوقت ضرورت کون اکساتی اور خاموش کراتی ہے؟ فوج، اب اگر سب کا سب فوج کر رہی ہے تو اس اتنے سارے ڈرامے کی ضرورت کیا ہے کہ اتنے سارے نام نہاد لیڈرز بنا کر ملک و قوم کا خون چوسنے چھوڑے ہوئے ہیں۔
جب تک ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ نہیں ہو گا، کارخانے اور بڑے بڑے کاروبار قومیائے نہیں جائیں گے تب تک نہ امیر غریب کے درمیان یہ خلیج کم ہو گی اور نہ انصاف ہو سکے گا۔ اب کے اگر حالات بگڑے تو سنبھل نہیں پائیں گے کیونکہ قارئین اندازہ صرف اس بات سے لگائیں کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت وہ بھی دو بچوں کی ماں اگر احساس محرومی کی وجہ سے خودکش بن سکتی ہے تو ملک میں زندگی و حالات سے تنگ افراد کی تعداد کروڑوں میں ہے، کم نہیں۔