پولیو کے مسلسل دو کیسز پولیو ٹیم کی فیک مارکنگ کا نتیجہ
عبدالستار
شمالی وزیرستان میں مسلسل پولیو کا دوسرا کیس رپورٹ ہونے پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (اے ڈی ایچ او) ڈاکٹر شمس نے کہا کہ ان علاقوں میں پولیو ٹیم فیک مارکنگ کرتی رہی جس کی وجہ سے بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہ گئے تھے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں دس دنوں میں دوسرا پولیو کیس بھی رپورٹ ہوا۔ اس سلسلے میں پاکستان انسداد پولیو پروگرام نے دوسرے پولیو کیس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وائلڈ پولیو وائرس نے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی چوبیس ماہ کی بچی کو متاثر کیا ہے۔
اس سے پہلے پورے ملک میں پچھلے پندرہ ماہ تک پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا جس کی پوری دنیا میں پاکستان سے پولیو وائرس کے خاتمے کی امیدیں پیدا ہو گئی تھیں اور پولیو ورکرز کی تعریفیں ہو رہی تھیں جبکہ پچھلے سال پورے ملک میں صرف ایک کیس صوبہ بلوچستان سے رپورٹ ہوا تھا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر شمس نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سال دو ہزار انیس کے بعد شمالی وزیرستان میں پولیو کے دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلا کیس ایسوڑی کے علاقے میں بائیس اپریل کو رپورٹ ہوا جبکہ دوسرا کیس تیس اپریل کو یونین کونسل میرعلی شاہ خدری گاؤں کے علاقہ ٹوچی پار سے رپورٹ ہوا جہاں دو سال کی بچی کے بائیں پاؤں کو پولیو وائرس نے متاثر کیا ہے۔
ڈاکٹر شمس نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں پولیو کیسز رپورٹ ہونے کے بعد ایمرجنسی پولیو ویکسینیشن مہم بھی چلائی گئی ہے جس میں قطروں کے ساتھ انجکشن بھی بچوں کو لگا دیئے گئے جبکہ متاثرہ دونوں بچے پولیو قطروں سے محروم رہ چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مہم سے پہلے علاقے کے ملکان سیاسی لیڈران اور بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ میٹنگ بھی کی اور ان سے تعاون کی اپیل کی جبکہ انہیں پولیو وائرس کے حوالے سے بھی آگاہ کیا اور اب مئی کے مہینے میں دوبارہ نیشنل ایمونائیزیشن مہم کے دوران بھی بچوں کو قطرے پلائیں گے۔
کیا متاثرہ بچی کے خاندان والے پولیو قطروں سے انکاری تھے؟
اے ڈی ایچ او شمالی وزیرستان ڈاکٹر شمس نے بتایا کہ یہ سائلنٹ ریفیوزل (خاموش انکار) تھا، خدری گاؤں جہاں پر کئی سو بچے ہیں ان کے والدین خاموش انکاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیو مہم میں یہ لوگ پولیو ٹیموں سے اپنی انٹری کے ساتھ بچوں کے ہاتھ پر فیک مارکنگ بھی کرتے ہیں اور اس علاقے کے لوگ معمول کے ٹیکہ جات سے بھی انکاری ہیں، ای پی آئی اور پولیو ٹیموں کے اہلکاروں کو مقامی لوگ کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں اور فیک مارکنگ کر کے واپس آ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر شمس نے بتایا کہ ان علاقوں میں سیکورٹی خدشات کی وجہ سے مانیٹرنگ والی ٹیمیں بھی بہت کم جاتی ہیں اور ابھی جو ہم نے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد ویکیسنیشن مہم چلائی تو کیو آر ایف اور ایف سی کی فل پروف سیکورٹی میں مہم مکمل کی۔
محکمہ صحت کے آفیسر نے کہا کہ پولیو کے وائرس ٹائپ ون ڈبلیو پی وی بنوں اور ارگرد علاقوں میں کئی سالوں سے موجود ہے اور انوائرمنٹل سیمپل میں بھی ان کے شواہد ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں سال دو ہزار انیس کے ماہ اپریل میں نو کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور اب بھی اپریل کے مہینے میں دو کیسز رپورٹ ہو گئے
ڈاکٹر شمس نے شمالی وزیرستان کے لوگوں سے اپیل کی کہ محکمہ صحت کی پولیو ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں تاکہ اس موذی مرض سے نہ صرف ان کے بچے معذوری سے بچ جائیں بلکہ پورا ملک اس وائرس سے پاک ہو جائے۔
خیال رہے کہ پولیو وائرس کا پہلا کیس شمالی وزیرستان کی یونین کونسل میرعلی گاؤں ایسوڑی میں رپورٹ ہوا تھا جس نے پندرہ ماہ کے بچے کو متاثرہ کیا تھا۔ ملک میں پندرہ ماہ بعد پولیو کیس رپورٹ ہونے پر سیکرٹری صحت عامر اشرف نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیو کیس رپورٹ ہونا بچوں کے لئے باعث تشویش ہے اور بلاشبہ پاکستان اور دنیا بھر میں پولیو کے خاتمہ کی کوششوں کے لئے بڑا دھچکا ہے، ہمیں پولیو کیس رپورٹ ہونے پر مایوسی ہوئی ہے تاہم ہم پرعزم ہیں۔
پولیو ایریڈیکیشن پروگرام پاکستان کے مطابق سال 2021 کی آخری سہ ماہی میں جنوبی خیبر پختونخوا سے ماحولیاتی نمونوں سے وائرس رپورٹ ہونے کے بعد پولیو وائرس کے لئے حساس قرار دیا گیا تھا جس میں ڈی آئی خان اور بنوں ڈویژن سے ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
سال 2020 میں خیبر پختونخوا سے 22 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جبکہ پچھلے سال صوبے سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔
پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ممالک ہیں جہاں پر پولیو وائرس اب بھی موجود ہے جب تک اس وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیا جاتا وائرس سے بچوں کو خطرہ رہے گا۔
سابق ڈائریکٹر ہیلتھ خیبر پختونخوا ڈاکٹر ایوب روز نے بتایا کہ دونوں بچے جن کو پولیو وائرس نے متاثر کیا ہے، ان کی رپورٹ آنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ بچوں کو پولیو کے قطروں سمیت معمول کے ٹیکے بھی نہیں لگائے گئے ہیں، پندرہ ماہ تک کوئی کیس رپورٹ نہ ہونے پر امید پیدا ہو گئی تھی کہ تین سال تک کیس رپورٹ نہ ہونے پر پولیو فری پاکستان کا اعلان کیا جائے گا لیکن بدقسمتی سے ہم اب بھی ان من گھڑت افواہوں کے شکار ہو رہے ہیں اور پولیو سے بچاؤ کے قطروں کو اپنے بچوں کو نہیں پلاتے۔
ڈاکٹر ایوب روز نے کہا کہ پوری دنیا کے پچاس سے زائد اسلامی ممالک میں کہیں پر پولیو وائرس کے خلاف مہم میں کوئی رکاوٹ نہیں جبکہ ہمارے برادر اسلامی ملک بنگلادیش میں جو پاکستان سے جدا ہوا ہے، وہاں پچھلے بارہ سال سے کوئی پولیو کا کیس رپورٹ نہیں ہوا لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور بالخصوص پشتون بیلٹ میں کیسز رپورٹ ہونا پریشانی کا سبب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا سے پولیو وائرس کا صفایا کر دیا گیا ہے صرف پاکستان اور افغانستان میں یہ وائرس پایا جاتا ہے۔
سابق ڈی جی ہیلتھ نے کہا کہ پولیو وائرس کے خلاف مہم میں فیک مارکنگ بہت اہم مسئلہ ہے جس کے لئے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پولیو مہم کے دوران پولیو ٹیموں کا ٹریکینگ سسٹم بھی متعارف کیا گیا ہے، سیٹلائٹ کے زریعے ٹیموں کی ٹریکینگ کی جاتی ہے جس کو ابھی چھ اضلاع میں شروع کیا گیا ہے اور ابتدائی معلومات کے مطابق اس سسٹم کے نتائج بھی اچھے آ رہے ہیں۔
ڈاکٹرایوب روز نے اپیل کی کہ پورے پاکستان خصوصاً پشتون بھائی پولیو مہم کے دوران اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں اور اس موذی مرض سے اپنے ملک کو صاف کریں۔