کرسمس، ایسٹر اور ہولی ایک ہی دن، پھر تین تین عیدیں کیوں؟
ماخام خٹک
روزہ اور عیدالفطر اکثر رویت کے حوالے سے متنازعہ ہو جاتے ہیں اور یہ تنازعہ اٹک کے اِس پار نہیں بلکہ اُس پار ہوتا ہے۔ سال کے دیگر دس مہینے کوئی رویت کا تنازعہ نہیں ہوتا اور نہ یہ جو ایک دن کا فرق رہ گیا ہوا ہوتا ہے وہ پورا سال چلتا ہے بلکہ زیادہ لمبا نہیں عید بقر یا دس ذی الحج پر بھی کبھی تنازعہ کھڑا نہیں ہوا۔
دراصل اس مسئلے کی کئی جہات ہیں اور ہر جہت اپنی پشت پر آرگومنٹس کا اگر انبار نہیں تو حساب کتاب برابر کرنے کا ایک سیرحاصل گفتگو کا تخمینہ ضرور رکھتا ہے۔
پہلا گراؤنڈ اور سولڈ گراؤنڈ جو میں سمجھتا ہوں وہ جغرافیائی اور تزویراتی ہے۔ وہ یہ کہ آج تین مئی (ان سطور کو رقم کرتے وقت) ہے افغانستان سمیت پوری دنیا میں دو شوال یعنی عیدالفطر کا دورسرا دن ہے (ویسے کبھی بھی افغانستان میں اس سے قبل سعودی عرب سے ایک دن پہلے عیدالفطر نہیں منائی گئی اور اِس بار افغانستان میں سعودی عرب سے ایک دن پہلے عیدالفطر منانا اگر ایک جانب طالبان حکومت اور ان کے انتظام اور انصرام پر ایک سوال ہے تو دوسری جانب جو رائے بنتی ہے کہ طالبان نے ایسا کر کے سیاسی طور پر عالمی سطح پر خود کو نمایاں یا زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے لیکن شاید ان کو خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یوکرائن پر روسی یلغار کے بعد یوکرائنی ایشو آگے آنے کے بعد افغانستان اور طالبان کا ایشو پس منظر میں چلا گیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ جن لوگوں نے خصوصی طور پر غلام خان کے اِس پار جو عید منائی وہ ہماری حکومت کے لئے اگر کھڑا سوال نہیں تو ٹیڑھا سوال ضرور ہے) جبکہ پاکستان سمیت دیگر ساؤتھ ایشیا ممالک میں یکم شوال عید الفطر کا پہلا دن ہے۔
بنیادی طور پر افغانستان کا علاقہ وسط ایشیاء میں آتا ہے اور اٹک تک کا یا اٹک کے اُس پار تک کا علاقہ کسی زمانے میں یا مغلوں کے دور سے افغانستان کے ساتھ شمار کیا جاتا تھا لیکن ڈیورنڈ معاہدے کی رو سے تورخم سے لے کر اٹک تک کا علاقہ اس سے کٹ کر برٹش راج اور پھر پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں آیا اور تب سے لے کر اب تک سرکاری طور پر متنازعہ بھی ہے۔ افغانستان کی ریاست اس باؤنڈری کو سرحد نہیں بلکہ ایک عارضی لکیر سمجتی ہے جبکہ پاکستان کی ریاست اس سرحد کو عالمی طور پر دیگر ممالک کی سرحدوں کی طرح ایک سرحد مانتی ہے۔ اب جیسے گاہے بگاہے کبھی تورخم پر گیٹ لگانے پر فائرنگ کا تبادلہ ہو جاتا ہے یا کبھی باڑ لگانے یا باڑ اکھاڑنے پر تلخی ہو جاتی ہے یا پھر کسی اور وجہ سے یہ سرحدی چپقلش سر اٹھاتی رہتی ہے بالکل اسی طرح یہ چاند کی رویت کا مسئلہ بھی ہے۔ اس کو بھی اسی تناظر اور تنازعے کے پس منظر میں دیکھ کر اگر پرکھا جائے تو اس کا حل نکل سکتا ہے۔
اب جب وسط ایشیاء کے ساتھ ہونے کی وجہ سے لازم ہے کہ افغانستان میں ایک دن پہلے رمضان یا عیدالفطر کا چاند نظر آئے گا تو جو علاقے افغانستان سے بالکل لگے ہوئے ہیں وہاں بھی چاند نظر آ رہا ہو گا جیسے لنڈی کوتل، غلام خان، باجوڑ اور دیر کے علاقے اور یہ تاریخ میں مشترکہ عیدیں کرتے آئے ہیں۔ اور اٹک کے اِس پار واہگہ بارڈر اور کھوکھراپار بارڈر انڈیا سے متصلہ علاقوں تک چاند نہیں دکھائی دیتا۔ جیسے کہ آج تین مئی ہے ساری دنیا میں آج عید الفطر کا دوسرا دن ہے لیکن ساؤتھ ایشین ممالک میں شوال کا پہلا دن ہے یعنی جس طرح پاکستان کے ان حصوں جو افغانستان سے متصل ہیں میں وسط ایشیا سے جڑے رہنے کی وجہ سے چاند نظر آ جاتا ہے بالکل اسی طرح پاکستان کے ان علاقوں میں جو انڈیا کے ساتھ متصل ہونے کی وجہ سے اٹک کے اِس پار سے لے کر واہگہ بارڈر اور کھوکھرا پار تک کے علاقوں میں چاند کا امکان یا سرے سے ہوتا نہیں یا پھر کم ہوتا یے۔
اب ہمارے ہاں جیسے کہ اس بار خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں سے ایک سو تیس شہادتیں پشاور میں رویت کے زونل کمیٹی کو موصول ہوئیں جس کی تصدیق مولانا عبد الشکور نے کی جس کو اِس وجہ سے ناکافی سمجھا گیا کہ یہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے بعد ان کو موصول ہوئیں۔ مولانا پوپلزئی کے پاس شہادتوں کا سلسلہ اس سے الگ ہے ان معنوں میں کہ وہ سرکاری ادارہ نہیں بلکہ ایک غیرسرکاری ادارے کی حیثیت سے یہ خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
اب ہمارے ماہرین فلکیات یا رویت ہلال کمیٹی کے ارکان اٹک کے اِس ہار ساؤتھ ایشین ریجن میں بیٹھ کر یہ رائے دیتے ہیں کہ عیدالفطر کے چاند کے امکانات نہیں جبکہ اٹک کے اُس پار وسط ایشیاء میں یہ امکان سو فی صد ہوتا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایک دو بار کے علاوہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پشاور میں بیٹھی ہوئی ہو تاکہ یہ مسئلہ ہی سرے سے ختم کرے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے عید کرنا ہو تو رات گیارہ بجے بھی عید الفطر کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ جب عید الفطر منانا ہو تو بدین یا پنچگور کے ساحل پر کسی ماہی گیر نے چاند دیکھا ہو گا لیکن اس کی شہادت کو کافی سمجھ کر حوالے کے طور پر میڈیالائز بھی کیا گیا ہے۔
دوسرا مسئلہ رویت کا فرقہ وارانہ یا فقہ ورانہ بھی ہے جیسے کہ مفتی منیب کے دور میں ہوا کہ ان پر یہ الزام تھا کہ وہ بریلوی مسلک سے ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ عید یا رمضان اکٹھے نہیں کرتے اور پوپلزئی یا دیگر لوگ پشاور میں دیوبند مسلک سے تعلق کی بنا پر سعودی عرب کے ساتھ رمضان اور عیدالفطر مناتے ہیں اور یہ لوگ مفتی منیب اور ان کی ٹیم کے ساتھ جانے کے لئے تیار نہیں۔
اِس کے علاوہ ہمارے ہاں بوہری برادری ہر سال ایک دن پہلے مصر کے ساتھ نہ صرف پاکستان میں بلکہ انڈیا میں بھی عید مناتی ہے لیکن ان پر کوئی اس لحاظ سے کوئی تنقید نہیں کرتا کہ رویت کا ظھور پاکستان یا انڈیا میں نہیں ہوا ہے تو کیسے یہ لوگ اپنی عید منا رہے ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیشی، برمی، ایرانی، افغان اور سومالی ریفیوجیز اپنے اپنے ملکوں کے ساتھ رمضان اور عیدالفطر مناتے ہیں اور ہم ان کو میڈیالائزڈ بھی کرتے ہیں۔ کبھی دو دو یا دوہری عیدیوں کا مسئلہ کھڑا نہیں کیا جو کہ ایک اچھا عمل ہے۔ لیکن جو عمل ایک جگہ یا ایک طرح کے لوگوں کے لئے اچھا اور قابل قبول ہو وہ دوسری جگہ یا دوسرے لوگوں کے لئے کیسے ناقابل قبول یا متنازعہ ہو سکتا ہے۔
اب آتے ہیں دیگر مذاہب کے تہواروں کی طرف! مثلاً کرسمس! یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ پچیس دسمبر کے علاوہ کسی ملک میں چھبیس دسمبر کو یا ایک دن پہلے چوبیس دسمبر کو منایا گیا ہو۔ بالکل اسی طرح ایسٹر بھی ساری دنیا میں ایک ہی دن منایا جاتا ہے۔ گو کہ ایسٹر کے لئے بھی ہمارے روزوں جیسا فارمولہ ہے۔ ہر سال دس دن کم ہوتے جاتے ہیں اور عیسائی برادری روزوں کے بعد یہ عید مناتی ہے لیکن کبھی بھی ان کے ہاں نااتفاقی دیکھنے کو نہیں ملی۔
پھر آتے ہیں ہولی کی طرف تو ہولی بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مقررہ تاریخ کے بعد یا الگ الگ منائی گئی ہو خواہ پاکستان میں ہو یا ہندوستان میں، ساری ہندوں برادری ایک ساتھ یہ تہوار مناتی ہے۔ اسی طرح ایران اور افغانستان میں جشن نوروز بھی ایک ہی دن اور ایک ہی تاریخ پر منایا جاتا ہے۔ اگر کرسمس، ایسٹر، ہولی اور نوروز کا تہوار ساری دنیا ایک ساتھ منا سکتی ہے تو ہم کیوں روزے اور خصوصی طور پر عیدالفطر ایک ساتھ نہیں منا سکتے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔