ورلڈ لیبر ڈے: مزدور کی محنت کب رنگ لائے گی؟
فاکہہ قمر
دنیا بھر میں یکم مئی کا دن "مزدوروں کے عالمی دن” کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد مزدور طبقہ کی معاشرے میں اہمیت اور ان کے حقوق کا پرچار کرنا ہے۔ اس دن پوری دنیا میں لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں، ریلیاں نکالتے، جلسے جلوس کرتے اور تقریریں کر کے اس دن کو نہایت جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔
عمومی طور پر اگر تاریخ کے اوراق کو کنگھالا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کی ایک تنظیم نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے بغاوت کر ڈالی تھی جس کے نتیجے میں جہاں پولیس لاٹھی چارج میں بے شمار مزدور شہید اور شدید زخمی ہوئے وہیں پر چند پولیس اہلکار بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس وقوعہ کے بعد امریکی عدالت نے ان گنت افراد کو متشبہ قرار دے کر پھانسی کے گھاٹ اتار دیا۔ ان باہمت مزدوروں کی یاد میں ان سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر اس دن کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
عام طور پر مزدور کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں جن اشخاص کا خاکہ ابھرتا ہے وہ یقینی طور پر کسی کارخانے میں کام کرنے والے مزدور یا محنت کش ہی ہوتے ہیں۔ مزدوروں کا عالمی دن کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کارگاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن مانا جاتا ہے لیکن اگر حقیقت پسندی سے اس کا تجزیہ کیا جائے تو ہر وہ فرد جو محنت کرتا ہے اور کام کے ساتھ مخلص ہے اور اپنی حق حلال کی کمائی سے اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتا ہے وہ مزدور ہی ہے۔اس میں وہ لوگ شمار ہوتے ہیں جو دفتروں، دکانوں، سکولوں، مدرسوں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والے ہیں۔
اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کما کے کھانے میں کوئی عار نہیں ہے۔ ہمارے دین اسلام میں ایسے لوگوں کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے جو کسب حلال کو اپنا شعائر بنا کر زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی میں صبر و شکر کرتے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اس سلسلے میں ہماری بھرپور رہنمائی کرتی نظر آتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ” اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال پاکیزہ چیزیں ہیں، وہ کھاﺅ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تو تمہیں یہ حکم دے گا کہ تم بدی اور بے حیائی کے کام کرو اور اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاﺅ، جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔ (سورة البقرہ)
ملک کی دن بدن گرتی ہوئی معیشت کی ناقص صورتحال اور پسماندگی کی بناء پر ہمارے ملک میں بہت سے بچے کم سنی میں مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس کتنے ایسے بچے ہیں جو اپنے بچپن کو فراموش کیے محنت کرتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتے ہیں لیکن کیا وہ انسان نہیں ہیں؟َ اگر حالات نے انہیں اس قدر مجبور کر دیا ہے اور وہ چائلڈ لیبر کرنے پر مجبور ہیں تو کیا وہ ہمارے معاشرے کے فعال رکن نہیں ہیں؟ کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں؟ مجبوری کے باعث غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو ہم اور مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چھوٹے بچوں سے زبردستی چائلڈ لیبر کرواتے ہیں پھر ان پر تشدد کرتے ہیں اور اگر وہ آگے سے بول پڑیں تو پھر تو ان کی خیر نہیں، ان کو قبر میں اتارنا ہمارا فرض عین ہے۔
ایسی بے شمار خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں، افسوس کرتے ہیں لیکن کچھ نہیں کرتے۔مزدوروں کے دن پر ان کے جن حقوق کی گردان ہم پڑھتے ہیں کیا ہم اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں؟ کیا فائدہ ان نکات کا جن پر عمل ہی نہیں کیا جائے۔
اس شعور اور علم کا کیا فائدہ جس سے کسی کو نفع نہ ملے؟ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ اس دن کی کیا اہمیت ہے اور اس کو منانا ضروری ہے لیکن کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کو منانا کیسے ہے؟ چند تعریفی کلمات، تقریروں سے ان مزدوروں کے خون اور پسینہ کی ایک بوند کا بھی ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ خالی خولی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر آپ واقعی جذبات رکھتے ہیں اور اپنے اندر کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں اور خود میں ان مزدوروں کا درد رکھتے ہیں تو پھر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور ہر وہ شخص جو محنت کرتا ہے اس کی عزت و تکریم کا خیال رکھیں، اس کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیں۔ اگر کسی سے کوئی کام کروائیں تو اس کو انسان سمجھتے ہوئے مناسب اوقات میں اس کی خدمات لیں نہ کہ اس پر بوجھ طاری کر دیا جائے۔ مزدور کی مزدوری ہمیشہ اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کریں اور ان سے محبت و شفقت سے پیش آئیں، یہ بھی ہماری طرح انسان ہیں، جذبات رکھتے ہیں۔
امید ہے کہ ان تمام بظاہر چھوٹی نظر آنے والی باتوں پر جب آپ عمل کریں گے تو معاشرے میں صحیح معنوں میں مزدور کی عزت و اہمیت کو اجاگر کر سکیں گے۔ ہمیشہ عملی کام کو ترجیح دیں، باتیں تو سب کرتے ہیں۔ آپ پہل کریں اور تبدیلی لانے میں اپنا کردار ادا کریں اور پوری دنیا میں اپنی اور اپنے ملک کی مثال قائم کر کے دکھائیں کہ کسی کے حقوق کو واضح کرنے کے لیے محض ایک دن کافی نہیں ہوتا بلکہ ہر روز وہ دن ہوتا ہے۔
ہم سب کو کوشش کر کے حالات بدلنے چاہئیں تاکہ تمام مزدوروں کو ان کے جائز حقوق ملیں اور ان کو کسی دن کا محتاج نہ ہونا پڑے کہ وہ اس دن اپنے حقوق کے حوالے سے بات کریں یا کوئی مطالبہ کریں۔