سیاست

بونیر میں خواتین کا رجسٹرڈ ووٹ مردوں کے مقابلے میں کم کیوں؟

عظمت حسین

آبادی کے لحاظ سے بونیر میں خواتین کی اکثریت ہے، تاہم حیران کن طور پر خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ مردوں کے مقابلے تقریباً 11 فیصد کم ہیں، اس مضمون میں ہم نے وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے۔

بحیثت پاکستانی شہری کے ہمارا حق رائے دہی قومی شناختی کارڈ سے جڑا ہوا ہے۔ قومی شناختی کارڈ جہاں ہر شہری کی شناخت کی توثیق کرتا ہے وہیں فیصلہ سازی میں ووٹ کے ذریعے اس کے آئینی حق کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عورت اور مرد کا ووٹ مساوی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ فریقین کے حق رائے دہی کو یقینی بنانے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنےکے لئے اقدامات اٹھائے جو کہ وہ اٹھا بھی رہی ہے تاہم یہاں جو امر مانع ہے وہ پاکستان کی تقریباً نصف آبادی کی اہل ووٹرز میں سے تقریباً سوا کروڑ عورتوں کے پاس شناختی کارڈ کے نہ ہونے کا ہے۔

دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آوٹ کو دیکھا جائے تو مردوں اور عورتوں کے ٹرن آؤٹ میں گیپ یعنی فرق تقریباً نو فیصد رہا اور مردوں کے مقابلے میں گیارہ ملین عورتوں نے اپنے ووٹ کا استعمال نہ کیا۔  اس حوالے سے خیبر پختونخوا میں صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو دو ہزار اٹھارہ اور پھر دو ہزار اکیس بائیس کے بلدیاتی انتخابات میں مردوں کے مقابلے میں ٹرن آؤٹ کم رہا ہے۔ ضلع بونیر بھی ان اضلاع میں شامل ہے جہاں عورتوں کی ووٹ رجسٹریشن اور الیکشنز میں ٹرن آؤٹ خاطر خواہ کمی سے متاثر ہے۔

اسی حوالے سے نمائندہ الیکشن کمیشن بونیر نجیب خان  کا ماننا ہے کہ بونیر میں خواتین اور مردوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں تقریباً 11 فیصد کا فرق ہے۔ ان کے مطابق  ووٹ رجسٹریشن کی شرح میں کمی کی بڑی وجہ دوردراز علاقوں میں ٹرانسپورٹ کی سہولیات، تعلیم کی کمی اور ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگہی کا نہ ہونا ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن بونیر نے وکلاء اور محکمہ تعلیم کے اشتراک سے "ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹی” کے نام سے کمیٹی تشکیل دی ہے جو مختلف سکولوں، کالجوں اور لوکل کمیونٹی کے ساتھ مل کر عوام  میں ووٹ کی اہمیت بارے آگہی کے لئے کام کرتی تھی۔ تاہم کورونا کی وجہ سے یہ مہم بند کر دی گئی تھی جسے دوبارہ شروع کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

محمد سلیمان خان

ووٹ کی رجسٹریشن یا تو براہ راست فارم کے ذریعے جو کہ الیکشن کمیشن کے دفتر یا ڈسپلے سنٹرز میں بھر دیئے جاتے ہیں اور یا نادرا ڈیٹا بیس کے ذریعے ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن بونیر کے مطابق ضلع میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد پانچ لاکھ اٹھارہ ہزار نو سو چھیانوے ہے جس میں 55 اعشاریہ 36 فیصد مردانہ اور 44 اعشاریہ 63 فیصد زنانہ ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔ جبکہ دونوں کے درمیان 10 اعشاریہ 73 فیصد ووٹوں کا فرق ہے جو کہ پچپن ہزار سات سو بارہ ووٹ بنتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے درج بالا حقائق کی تصدیق کے لئے ہم نے دورافتادہ علاقوں میں خواتین کے  شناختی کارڈ نہ بنانے اور ووٹ رجسٹریشن  میں کمی کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو تحصیل چغرزی کے گاؤں کَس سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ اصل وجہ ہمارے دورافتادہ علاقوں کی خواتین کا نادرا رجسٹریشن سنٹرز تک رسائی کا ہے، نادرا رجسٹریشن سنٹرز کی کمی اور سڑکوں کی ابتر صورتحال اس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ پسماندہ ہیں اور روزگار کے چکر میں یا تو بیرون یا پھر اندرون ملک مزدوری کرتے ہیں، گھر آ جائیں تو کارڈ بنانے کے چکر میں دو دو، تین تین دن ذلیل و خوار ہوتے ہیں، نہ تو بروقت دفاتر پہنچ پاتے ہیں اور نہ وہاں ان کے ساتھ کوئی خاطرخواہ تعاؤن کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی بیوی کا شناختی کارڈ بنانے گیا تو ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ خدا خدا کر کے دوپہر کو میری باری آئی تو مطلوبہ کاغذات دیکھنے کے بعد فارم بھر کر فارم پرنٹ کر کے ہاتھ میں تھمایا گیا کہ اس کی کلاس ون آفیسر سے تصدیق کرا کے واپس جمع کرادیں۔ جب نزدیکی سکول گیا تو چھٹی ہو گئی تھی، مجبوراً بیوی کو گھر لے جانا پڑا اور دوسرے روز پھر واپس آ کر فارم کی تصدیق کروا کے جمع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑی علاقے ہیں اکثر مرد مزدوری کی خاطر شہروں میں ہوتے ہیں کسی اکیلی خاتون کے لئے اس عمل سے گزرنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لئے خواتین اس جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتیں اور وہ قومی شناختی کارڈ نہ بنانے کو ترجیح دیتی ہیں۔

تحصیل مندن سے تعلق رکھنے والے صحافی و سوشل ایکٹیوسٹ محمد دوا خان کا کہنا تھا کہ خواتین کے شناختی کارڈ نہ بنانے کے عمل میں بلدیاتی نظام کا بڑا کردار ہے کیونکہ پہلے نکاح رجسٹرار کے نکاح نامے پر شناختی کارڈ بن جاتا تھا اب وہی نکاح نامہ ویلج کونسل سیکرٹری سے کمپیوٹرائزڈ بنوانا لازمی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحصیل مندن کی تمام ویلج کونسلوں کے سیکرٹریز ایک ہی دفتر میں بیٹھتے ہیں اور وہ بھی آبادی سے دور ایسی جگہ ہے جہاں خواتین اکیلے نہیں جا سکتیں۔ بجائے اس کے کہ وسائل تک لوگوں کی رسائی ہو اس بلدیاتی نظام نے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔

گاؤں جبو سے تعلق رکھنے والی خورشید کہتی ہیں کہ ان کی شادی کا 8 سال گزر گئے لیکن ابھی تک شناختی کارڈ نہیں بنا کیونکہ ان کے شوہر دوبئی میں مزدوری کرتے ہیں بھائی اور والد ہیں نہیں جبکہ والدہ کو دفاتر کا پتہ نہیں ہے۔ شناختی کارڈ بنانے کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہیں اس کے بارے میں بھی آگہی نہیں ہے اس لئے احساس کفالت پروگرام سمیت صحت انصاف کارڈ و دیگر حکومتی ریلیف سے محروم ہوں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر گھر میں کوئی پڑھا لکھا فرد ہوتا یا نادرا  والے موبائل سروس مہیا کر دیتے تو ہمارے لئے بڑی آسانی ہوتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔

یاد رہے کہ بونیر میں اس وقت نادرا کے  زونل ہیڈ کوارٹر سواڑی میں میل اور فی میل کے علاوہ تحصیل مندن، خدوخیل اور چغرزی میں دفاتر کام کر رہے ہیں جبکہ ایک موبائل آفس سروس مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر خدمات انجام دیتی ہے۔

زونل ہیڈ کوارٹر نادرا  بونیر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اعجاز خان کا کہنا تھا کہ ابھی دو نئے دفاتر تحصیل ڈگر اور خدوخیل میں بہت جلد کھل جائیں گے جس کے ساتھ بونیر میں کل دفاتر کی تعداد آٹھ ہو جائے گی جبکہ نئی بھرتیوں سے سٹاف کی کمی کو دور کیا گیا ہے۔ اعجاز خان کا کہنا تھا کہ سال دو ہزار نو کے بعد انٹرنلی ڈسپلیسڈ پیپل اور آپریشن کے دوران کافی تعداد میں شناختی کارڈز بنے، پھر دیگر ترقیاتی پروگراموں یعنی احساس پروگرام، انصاف صحت کارڈ اور آخر میں کورونا ویکسینیشن  کے لئے شناختی کارڈ کو لازمی قرار دینے سے کافی حد تک شناختی کارڈ بن چکے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ 2023 تک بونیر میں 95 فیصد شہریوں کے شناختی کارڈ بنا دیئے جائیں گے۔

واضح رہے کہ بونیر کا شمار ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں خواتین کی آبادی مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے یعنی 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق بونیر کی کل آبادی نو لاکھ تریاسی ہزار پانچ سو اکسٹھ  ہے جس میں چار لاکھ نواسی ہزار چار سو چوبیس مرد جبکہ چار لاکھ چورانوے ہزار ایک سو سینتیس زنانہ آبادی ہے۔ محکمہ بہبود آبادی کے اندازے مطابق 2022 کے اختتام پر بونیر کی کل آبادی دس لاکھ پانچ ہزار دو سو تریتالیس ہو گی جس میں مردوں کی تعداد پانچ لاکھ تریاسی جبکہ پانچ لاکھ پانچ ہزار ایک سو ساٹھ خواتین ہوں گی۔ لیکن حیران کن طور پر بونیر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹ کی رجسٹریشن یا شناختی کارڈ بنانے کی شرح بہت کم ہے، جس کی بنیادی وجوہات نادرا حکام، الیکشن کمیشن حکام اور دیگر سرکاری و غیرسرکاری ادارے جان بھی چکے ہیں لیکن ان وجوہات کے حل کی طرف تاحال خاطر خواہ اقدامات اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

قومی سطح پر صنفی مساوات کی اساس کو مضبوط بنانے کے لئے وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات نے خواتین کے عالمی دن (آٹھ مارچ دو ہزار بائیس) کے موقع کی مناسبت سے نیشنل جینڈر پالیسی فریم ورک کے آغاز کا  اعلان کیا۔ وزارت منصوبہ بندی نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ پاکستان میں ہر میدان میں عورتوں اور مردوں کو آگے بڑھنے کے لئے برابری کی بنیاد پر مواقع ملنا بہت ضروری ہے۔ اور یہ کیوں ضروری ہے اس کا جواب ہمیں ورلڈ اکنامک فورم کی دو ہزار بائیس کی رپورٹ میں ملتا ہے۔

جینڈر انڈیکس گیپ نشاندہی کرتی ہے کہ  ایک سو چھپن ممالک میں سے صنفی مساوات  کے اعتبار سے پاکستان کا نمبر ایک سو تریپن ہے۔ سیاسی اعتبار سے عورتوں کی شمولیت مردوں کی نسبت کم ہے۔ الیکشنز میں عورتوں کے ووٹ کی شرح مردوں سے کم ہے۔ جرگوں اور معاہدوں وغیرہ کی شکل میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ان کو حیلے بہانوں سے سیاسی عمل میں شمولیت سے دور رکھا جاتا ہے جبکہ پاکستان کا دستور پارلیمانی نظام حکومت کی بنیاد ہے جس کی رو سے ہر بالغ عورت اور مرد (اٹھارہ سال پلس عمر) کو اختیار ہے کہ اپنے حق رائے دہی کا آزادانہ اظہار و استعمال کرے۔ اسی طرح ملک کا آئین برابری کی بنیاد پر عورت اور مرد کی فیصلہ سازی میں شمولیت کا ضامن ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button