سیاستکالم

سابق فاٹا: سونے کی چڑیا یا روئے زمین کا بدقسمت ٹکڑا

محمد سہیل مونس

پاکستان کے ضم شدہ اضلاع جنہیں عرف عام میں فاٹا یا پاٹا کہا جاتا تھا روئے زمین کا وہ بدقسمت ٹکڑا ہے جس کے باسیوں کے ساتھ اکیسویں صدی میں بھی ریڈ انڈینز جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ اگرچہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار تو انسانیت سوز آلام و مصائب کی نظیر نہیں ملتی لیکن اس پار بھی قصہ اس سے زیادہ مختلف نہیں۔

آج سے صدیوں پہلے جب انگریز یہاں آیا تو خصوصاً اس علاقے کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جو فرانسیسی افریقیوں کے ساتھ روا رکھتے تھے، یہاں FCR کا کالا قانون رائج کر دیا گیا جس کے تحت اس علاقے کا کوئی بھی شخص کوئی غیرقانونی حرکت کرتا تو سارے قبیلے کو پابند سلاسل کیا جاتا۔ اس قانون میں کسی ملزم کو یہ بھی حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کسی سزا کے خلاف کوئی اپیل کرے یا کوئی دوسری چارہ جوئی کرے کہ انہیں اپنی صفائی کا موقع ہاتھ آئے۔

اس علاقے میں انگریز بہادر کے قوائد و ضوابط کو من و عن نافذ کرنے کے کئے ایک نمائندہ پولیٹیکل ایجنٹ کے نام سے تعینات ہوتا جو اس علاقے کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔ اس علاقے کے بیشتر قضیے جرگہ کے تحت حل کئے جاتے جو فوری انصاف کی فراہمی میں ممد و معاون ثابت ہوتا اور اہل علاقہ سیٹل ایریاز کی طرح عدالت و کچہری کے چکروں کے درد سر سے محفوظ رہتے۔

پاکستان بن جانے کے ستر برس بعد تک ان علاقوں کو اسی طرز پہ چلایا گیا جیسا کہ انگریز بہادر چلایا کرتا تھا، اس دور میں بھی اس خطے کے باسیوں کا ذریعہ معاش تجارت تھا اور آج بھی ہے۔ اس علاقے کے عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ جس طرح انگریز دور میں انہیں بنیادی انسانی ضرورت کی سہولتوں سے دور رکھا گیا ویسے ہی ستر برس تک پاکستان نے بھی گزارے اور اس جانب کبھی غور تک نہ کیا۔ ان لوگوں کی قسمت کے فیصلے ان کے ملکان کرتے تھے جن کو انگریز دور میں انگریز کی اشیر باد حاصل رہتی وہی ملک کہلانے کے لائق ہوتا یہی کلچر پاکستان بننے کے بعد بھی چلنے دیا گیا۔

ان علاقوں کی ترقی کو نظر انداز کئے رکھنے میں اگر ایک جانب ان کے ملک حضرات کا دوش تھا تو دوسری جانب علاقے کا پولیٹیکل ایجنٹ بھی اس سے دو ہاتھ آگے ہی ہوتا۔ صدیاں بیت گئیں اور ان لوگوں کی قسمت نہ بدلی، ساتھ میں آبادی بھی بڑھتی رہی نہ یہاں تعلیم کی سہولت نہ صحت اور نہ روزگار کے مواقع وہ فارسی میں کہتے ہیں ناں کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد یہی کچھ یہاں بھی ہوا۔ لوگوں نے سمگلنگ، افیون کی کاشت اور نشہ آور اشیاء کے کاروبار کے ساتھ ساتھ اسلحہ سازی اور پھر ملک و بیرون ملک اس کے پہنچانے کا کام شروع کیا۔ یہ تمام کام دھندے اس عروج پر پہنچے کہ اکثر ایجنسیز کے پولیٹیکل ایجنٹس کی تعیناتیاں بڑی سفارش اور بعد میں بھاری بھرکم رشوتوں کے عوض ہونے لگیں۔ ایک محتاط انداذے کے مطابق سالانہ اربوں روپے کی سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کام ہوتے جس میں پولیٹیکل ایجنٹس کے ماتحتوں سے لے کر گورنر اور وفاق تک سب کا اپنا اپنا حصہ جاتا کیونکہ تھا تو یہ فیڈرلی ایڈمنسٹریٹڈ ایریاء۔

اب ایسے حالات میں یہ سونے کی چڑیاء ذبح کرنے کو کس کا من تھا اور جب دہشت گردی نے پنجے گاڑ دیئے تو اس کینسر کو صاف کرنے واسطے بھی بالآخر سوچنا ہی پڑا۔ ان علاقوں کے بارے میں بارک اوبامہ نے کہا تھا کہ یہ دنیا کے خطرنات ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں جہادیوں کو پالا گیا، پہلے روس اور بعد میں امریکہ کے خلاف استعمال کیا گیا۔ جب یہی کینسر اپنے وجود میں سرائیت کرنے کے لئے بے چین پایا گیا تو ضرب عضب اور رد الفساد جیسے آپریشنز لانچ کرنا پڑے۔

اس تمام کہانی میں اس خطے کے باسیوں کا دوش کیا تھا کبھی کسی نے اس پہ بات نہیں کی البتہ ان لوگوں کا نام ایک لمبے عرصے تک بدنام اس لئے رہا کہ ان کی دلخراش داستان سے کوئی واقف نہ تھا۔

سن دو ہزار سولہ میں سینیٹر سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں فاٹا ریفارمز کمیٹی بنی جس میں فیصلہ یہ کیا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ میں سے تین فیصد حصہ یا پھر سالانہ سو بلین روپے کی رقم مختص ہوا کرے گی جس پہ بعد میں کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ پھر مئی دو ہزار اٹھارہ میں پاکستان نے بالآخر ایک تاریخی آئینی ترمیم منظور کر کے فاٹا کی خودمختار حیثیت ختم کر دی اور تمام علاقے کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد یہاں کے عوام کا احساس محرومی دور کرنا تھا اور انہیں قومی دھارے میں شامل کر کے ایک آزاد پاکستانی کی طرح ساتھ لے کر چلنا تھا۔ یہاں سے دہشت و بربریت کا خاتمہ کر کے ترقی اور خوشحالی کی جانب محو سفر ہونا تھا کیونکہ دہشتگردی کی وجہ سے یہاں کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا تھا نہ سکولز سالم تھے نہ مدارس نہ حجرے اور نہ شفاء خانے وغیرہ۔

خیر جن قوتوں نے ان علاقوں کا یہ حال کیا ہوا تھا انھوں نے مدد بھی کی جیسے سعودی عرب نے ملاکنڈ، باجوڑ اور خیبر جیسے اضلاع کے لئے بہتر (72) ملین ڈالرز کی امداد دی جو کہ فوج اور نان گورنمنٹل آرگنائزیشنز کے ہاتھوں یہاں لگائی گئی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ لگانے والوں نے کتنی ایمانداری سے کام کیا ہے البتہ قومی اسمبلی کو پارلیمانی فنانس سیکرٹری نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ آبادکاری اور ترقی کی مد میں حکومت اب تک دو سو ستر بلین کے فنڈز مختص کر چکی ہے جس میں سے ستانویں اعشاریہ چھ بلین سال دو ہزار انیس و بیس، ایک سو اکیس اعشاریہ ایک بلین سال دو ہزار بیس اور بائیس میں جاری کرائے گئے جبکہ مزید ایک سو انتیس اعشاریہ سات بلین مختص کر رہی ہے جو ڈیویزبل (قابل تقسیم) پول سے ہیں۔

اس مد میں جب این ایف سی کا ذکر آیا تو سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ ضم شدہ اضلاع کے تین فیصد کا ذکر ایجنڈے پہ موجود ہے، ان باتوں سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ان اضلاع کو انضمام کے بعد بھی عارضی بنیادوں پہ چلانے کا پلان ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فاٹا کے عوام کی قسمت اب بھی نہیں جاگی جس کے لئے ایک مضبوط آواز بلند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیونکہ اب فاٹا والے قبائل نہیں رہے، وہ بھی اسی طرح پاکستانی ہیں جس طرح بلوچ، سندھی اور پنجابی۔ اگر حکومت وقت آج بھی، ان نامساعد معاشی حالات میں بھی ضم شدہ اضلاع کو first prioirty نہیں دیں گے تو یہاں کے عوام نہایت ہی بدظن ہوں گے کیونکہ ایک عرصہ سے نہ تو ان علاقوں میں قانون کا نفاذ صحیح طریقے سے ہو پایا ہے نہ انصاف کا نظام اس پایہ کا ہے جس سے وہ مطمئن ہو پائیں۔ یہاں کے اکثر بچے آج بھی سکولز سے محروم ہیں، بچیاں آج بھی دہشت کے مارے اپنی تعلیم جاری رکھنے میں دشواریوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان علاقوں کے بے روزگار نوجوان طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہیں جن کے لئے راہ فرار کے طور پر نشہ کی لت ان کی دہلیز پہ میسر ہے۔

ان اضلاع کے انضمام کے بعد بھی حالات نہیں بدلے، جو کچھ ان کے ساتھ انگریز بہادر کر رہا تھا وہی کچھ آج بھی چل رہا ہے ، لنڈی کوتل کے علاقے میں ایک ٹرانسپورٹ ٹرمینل کی تعمیر کی جانی تھی جس کے لئے علاقہ کے لوگوں سے زمیں ایکوائر کی گئی لیکن جتنی زمین کی بات طے پائی تھی ایک تو اس سے زیادہ کی اراضی پہ حکومت قابض ہو گئی دوسری جانب جو معاہدہ زمین کے مالکان اور حکومتی ارباب اختیار کے بیچ طے پایا تھا ان سے حکومت منحرف ہو گئی۔ اس مسئلہ کے حل نے تقریباً کئی ماہ لئے اور عوام نے اپنی بات منوا کر یہ شرط بھی رکھ دی کہ این ایل سی کے ٹرکس کو صرف یہ اختیار حاصل نہیں ہو گا کہ وہ افغان ٹرانزٹ کا مال اپنے ٹرکوں میں لاد کر یہاں کے لوکل ٹرانسپورٹرز کو بھوکوں مار دیں۔

اب آگے دیکھتے ہیں کہ حکومت ضم شدہ اضلاع کا کیا کرتی ہے لیکن بحیثیت ایک پاکستانی ان کا بھی اتنا حق پاکستان پر ہے جتنا کہ کسی اور پاکستانی کا، امید ہے ہم ایک بہتر سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اپنے ان بھائیوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے جو ایک زمانہ تک ہماری سرحدوں کے بلاتنخواہ رکھوالے رہے۔

محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button