سیاستکالم

توشہ خانہ یا ”تشہ خانہ” یعنی میرا تحفہ میری مرضی

ماخام خٹک
اس سے پہلے کہ میں اس موضوع پر کچھ لکھنے کے لئے آگے بڑھوں، پہلے پہل اس توشہ خانہ اور ”تشہ خانہ” کے درمیان فرق کو واضع کرتا چلوں۔ دراصل توشہ پشتو یا فارسی میں تحفہ، ہدیہ یا بخشش کو کہتے ہیں۔ توشہ پشتو میں بھلائی، کام آنے یا ساتھ دینے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہ جیسے کہ اگر کوئی کسی کے کام کا نہ ہو یا کسی کے کام نہ آتا ہو یا کسی سے کوئی خیر کی توقع نہ ہو تو پشتو میں ایسے بندے کے لئے بولتے ہیں "دے د چا د شے توشے نہ دے” یعنی فلاں شخص یا آدمی کسی کے بھلے کا نہیں۔ اور جو کسی کے کام آتا ہو تو ایسے شخص کے لئے کہا جاتا ہے کہ "دا د شے توشے سڑے دے۔”

اب جب توشہ تحفہ ہوا اور کام آنے والی چیز ہو گئی تو ایسی چیز کو تو سنبھال کر بھی رکھنا ہو گا تو ایسی جگہ جہاں یہ اچھی بھلی شے، تحفہ، ہدیہ یا بخشی ہوئی چیز بحفاظت رکھی جاتی ہے کو توشہ خانہ کہا جاتا ہے۔ ویسے بھی عام زندگی میں کسی کے ہاتھ کی نشانی یا تحفہ کوئی بیچتا نہیں بلکہ یادگار کے طور پر سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ اور اگر یہ توشہ یا تحفہ پھر کسی ملک یا کسی ملک کے سربراہ کی طرف سے ہو تو ایسے تحفے یا توشے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ وہ صرف قیمت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی اہمیت، قدر اور وزن اس ملک یا ملک کےسربراہ یا پھر اس ملک کی اپنی شناخت کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اب آتے ہیں ”تشہ خانہ” کی جانب! ”تشہ” پشتو میں خالی کو بولتے ہیں اور خانہ گھر کو کہتے ہیں تو ”تشہ خانہ” کا مطلب ہوا خالی خانہ یا خالی گھرـ اب توشہ خانے میں جو توشہ ہے اگر اس کو کسی کو دے دیا جائے یا بیچ دیا جائے تو خانہ میں اندر کچھ نہیں بچتا اور اس اندر کچھ نہ بچنے کی حالت کو پشتو میں ”تش” یا ”تشہ” بولتے ہیں اور جب یہ حالت توشہ خانہ سے متعلق ہو تو اسے توشہ خانہ نہیں بلکہ ”تشہ خانہ” یعنی خالی گھر یا خالی خانہ کہا جائے گا۔
اور یہ بھی اتفاق ہے کہ جب بھی کوئی حکومت بدلتی ہے تو وہ جو سب سے پہلے رونے دھونے کا ورد کرتی ہے تو وہ خزانہ خالی کا کرتی ہے اور جس حکومت کو خزانہ خالی ملتا ہو تو توشہ خانہ کہاں سے بھرا ملے گا۔ اور عمران خان توشہ خانہ ریفرنس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ تحفے عمران خان کی ذاتی ملکیت نہیں یہ ریاست کی جاگیر ہیں، ان کو واپس کیا جائے اور گزشتہ بیس سالوں کا توشہ خانے کا ریکارڈ بھی پیش کیا جائے۔

بالکل درست کہا ہے جج صاحب نے ایسا ہی ہونا چاہئے۔ لیکن اگر ایسے ریمارکس نیب اور دیگر کرپشن کے کیسز میں بھی آئیں تو کیا مزہ آئے گا کیونکہ کرپشن میں بھی ملکی خزانے کو لوٹنا کسی کی ذاتی ملکیت کے فارمولے پر پورا اترتا ہے، یہ لوٹا ہوا مال بھی ریاست کی جاگیر ہوتا ہے اسے واپس کرنا چاہئےـ

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کیس ثابت ہی نہیں ہوتے، ریاست کے لوٹے ہوئے پیسوں پر حکومت کے اہلکار پلی بارگین کر جاتے ہیں اور ملزمان کو کچھ پرسنٹ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور جب یہ قانون پاس ہو رہا تھا تو ایسی سوچ کہاں مفقود تھی کہ اس کا راستہ روکتے، جس کی زندہ مثال ایڈمرل منصورالحق تھے۔

یہ پہلی بار نہیں کہ توشہ خانہ کے تحائف بیچے گئے۔ اس سے پہلے بھی سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، نواز شریف، آصف علی زرداری وغیرہ پر یہ الزامات عائد ہو چکے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جو خزانہ خالی کرانے پر تلے ہوئے ہوں ان سے توشہ خانہ کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ جہاں بیرونی قرضہ میں کک بیکس اور پرسنٹیج لیا جاتا ہو وہاں پر توشہ خانہ بچانا چہ معنی دارد، جہاں نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے لوگ لے جانے اور بٹورنے کے عادی ہوں وہاں توشہ خانہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے، جہاں مسجد سے لوگ چپل چرا کے لے جاتے ہوں، جہاں پانی کا ایک سستا گلاس لوگ نہیں چھوڑتے اور اس کو لے جانے کے خوف سے پابہ زنجیر کیا گیا ہو، جہاں بینکس وغیرہ میں دس روپے کی بال پوائنٹ کو لے جانے کے خوف سے باندھا گیا ہو، جہاں پلاسٹک کی کرسیاں لے جانے کے خوف سے زنجیر سے باندھی گئی ہوں، جہاں گاڑیوں کے سائیڈ گلاسز، بیٹریاں، ٹائرز، ٹیپس اور گاڑیوں کے اپر یا کور غیرمحفوظ ہوں، جہاں سڑکوں کے گٹر کے ڈھکنے آئے دن غائب ہوں وہاں توشہ خانے کی سلامتی کے تصور پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

جمہوریت ہے اور جمہوریت میں فیصلے عوامی ہوتے ہیں، جن کا بس چپل چرانے کا چلتا ہے وہ چپل لے جاتے ہیں، جن کا گلاس پر اکتفا ہوتا ہے وہ گلاس اٹھا لیتے ہیں، جو کرسیاں، گاڑیوں کے شیشے، ٹائرز، کورز اور بیٹریاں لے جانے پر قادر ہوں وہ یہ سب چیزیں لے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں ہر چیز گراس روٹـس لیول سے آغاز کرتی ہے جیسے عوام ویسے حکمران بس ان کو ان سے بڑی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ اس پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔
جج صاحب نے درست ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ ریاستی مال ہے یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں اور ہمارے ملک میں کوئی بھی چیز کسی کی ملکیت نہیں ہوتی جو جس کو جس وقت چاہئے یا درکار ہو وہ موقع دیکھتے ہی اس چیز کو توشہ خانے کے مال کی طرح مال غنیمت سمجھ کر اچک کر لے جاتے ہیں بس موقع ملنے کی دیر ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button