ماخام خٹک
بڑی جان جوکھوں کے بعد پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کرانے کا دن آن پہنچا گو کہ اس بار کوئی خاردار تار یا کوئی دیگر رکاوٹ نہیں تھی اور مرکز میں حکومت بدلنے کی وجہ سے کسی انتہائی ناخوشگوار واقعات کی توقعات بھی نہیں تھیں۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ کچھ بھی، کسی وقت بھی، جہاں بھی، جیسے بھی اور کسی کی جانب سے بھی کچھ انہونی ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اور ہوا بھی وہی۔ پہلے تو وہ دھینگا مشتی یا آسان لفظوں میں وہ کشتی ہوئی جو داؤ پیچ سے زیادہ کک باکسنگ لگ رہی تھی۔ اور مزے کی بات یہ، کہ یہ یورپ سٹائل کی فری ریسلنگ دکھائی دی جس میں خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا اور ریفریز کو بھی اس دوران لپیٹا اور وہاں موجود سازوسامان کو بھی تلپٹ کر دیا۔
اصل میں یہ جو سب کچھ ہوا وہ ایک ایسی جگہ اور ایسے لوگوں کے درمیاں ہوا کہ وہ قوم کے منتخب مطلب چنے ہوئے لوگ تھے اور جو چنا جاتا ہے وہ کریم آف دی سوسائٹی ہوتے ہیں، جن لوگوں کو عوام قانون اور آئین بنانے اور قانون و آئین کی پاسداری کے لئے بھیجے اور وہ خود قانون کو ہاتھوں میں لیں اور قانون و آئین کو اپنے پاؤں تلے روندیں اور اوپر سے یہ ایوان کی کارروائی میں بھی گنا جائے اور اس دن کی ٹی اے ڈی اے بھی انہیں ملے تو عوام دونوں جانب سے مارے جاتے ہیں، ایک تو قانونی و اخلاقی لحاظ سے اور دوسرے مالی لحاظ سے اور پھر مزے کی بات یہ کہ پرویز الہی صاحب کا اور دیگر "معزز” اراکین صوبائی اسمبلی کے بیانات بھی آتے ہیں کہ پولیس اور سیکورٹی کے آنے سے اسمبلی کا استحقاق مجروع ہوا ہے، وہ اندر نہیں آ سکتے اور مزید یہ کہ آئینی طور پر ان کے کسی بھی اقدام کو چیلنج یا روکا نہیں جا سکتا حتٰی کہ عدالت بھی اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
یہ سب باتیں درست لیکن کیا آئینی اور قانونی طور پر اسمبلی کے اندر دھینگا مشتی یا کشتی، مکے، ہاتھا پائی، بدسلوکی، گالم گلوچ دھکم پیل اور کھینچا تھانی جائز ہے؟ کیا اسمبلی کے دروازے بند کرنا اور اس کے گرداگرد خاردار تار کا نصب کرنا قانونی اور آئینی طور پر جائز ہے؟ قانون کا مقولہ ہے کہ قانون کو پورا پڑھا اور سمجھا جائے۔ ایسا نہیں کہ اپنے مطلب کی بات پر عمل درآمد ہو اور جو بات مخالفت میں ہو اس کو نظرانداز کیا جائے یا پس پشت ڈال دیا جائے۔ قانون کا ایک اور بھی مقولہ ہے کہ جب کوئی شخص قانونی طور پر کوئی ریلیف چاہتا ہو تو پہلے ان کے اپنے ہاتھ صاف ہونے چاہئیں۔
مزے کی بات یہ کہ جو خود کو کسٹوڈین آف دی اسمبلی کہیں اور کھلم کھلا کیمرے کی آنکھ ان کو دکھائے کہ "للکار” کی صورت میں وہ اس سب لاقانونیت، دھینگامشتی، ماردھاڑ اور غیرآئینی عمل دخل کو سپوٹ کر رہے ہوں تو پھر گلہ کن سے کیا جائے۔ یہ اس طرح کی مثال بالکل اچھی نہیں لیکن اس موقع اور اس واقعے کی مناسبت سے بالکل درست بیٹھتی ہے تو پیشگی معذرت کے ساتھ کہہ دیتا ہوں: کہتے ہیں کہ سسر کی اپنی ہی بہو کے لئے نیت خراب ہوئی اور پھر اس برے ارادے کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا تو فراغت کے بعد تاکیداً بہو سے کہا کسی کو بتانا نہیں! جس پر بہو بولی میری شکایت کی جگہ تو تم تھے جب تم نے میرے ساتھ ایسا کیا تو میں کس کے پاس شکایت لے کر جاؤں گیَ
اور بعد میں یہ کسٹوڈین آف اسمبلی بجائے اس کے کہ تدبر، حکمت، دانائی اور ہوشمندی سے کام لیتے وہ کسی تھیٹر کے کامیڈین کے روپ میں سامنے آئے اور لوگوں کو اپنے وقت کا کامیڈین الطاف حسین یاد دلایا جو اکثر آن کیمرہ ایسا کیا کرتے تھے۔ یا وہ مانگنے والے یاد دلائے جو سربازار یا فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ہاتھ پاؤں پر خون آلود قسم کے پٹی پلاستر چڑھا کر عوام کو بے وقوف بنا کر بھیک مانگتے تھے۔
اب بندہ آکسیجن ماسک پہن کر بغیر آکسیجن کے کیسے گھوم پھر رہا ہے۔ اور ٹوٹے ہوئے ہاتھ کو گلے میں لٹکانے کے بعد سینے سے لگانے کے بجائے اٹھا اٹھا کر، ہلا ہلا کر (جو شاید تقریر کی عادت تھی) خودساختہ کیمرہ کے سامنے اپنی جارحیت کو مظلومیت میں تبدیل کرنے کی لاحاصل کوشش میں مصروف عمل نظر آ رہے ہیں اور اپنی مجروح شخصیت کو اور مجروح کرا رہے ہیں بلکہ کر چکے ہیں۔ ویسے بھی وزیر اعظم کی عدم اعتماد کی تحریک میں ان کی اور ان کے اخوند بزرگ کا کردار کھل کے سامنے آ چکا ہے۔ جن کے بارے میں آصف علی زرداری جیسے جوڑ توڑ اور سیاسی معاملات کو اتھل پتھل کرنے والے کو بھی بولنا اور ماننا پڑا کہ وہ دونوں بھائی شام کو ہمیں کہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ہیں اور صبح کسی اور کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اور شاید اپنی اسی ڈبل گیم کی وجہ سے سرے سے تمام کھیل سے باہر ہو گئے اور اس کہاوت کے مصداق کہ ہوشیار یا چالاک پرندہ پہلے پھنستا نہیں ہے اور جب پھنستا ہے تو پھر دونوں ٹانگوں سے پھنستا ہے۔
اب یہ نہ دونوں ٹانگوں کے ساتھ پھنسے ہیں بلکہ ہاتھ کے انگھوٹے کی للکار کے ساتھ نرغے میں آ چکے ہیں اور اپنے ہی شکار کا پینترا ان پر الٹ چکا ہے اور جن کو شکار کرنے کے لئے نکلے تھے وہ تو شکار ہونے سے صاف بچ نکلے اور شکاری اپنے ہی جال میں خود پھنس چکے ہیں۔
اب دیکھنا ہے کہ یہ نیا شکاری اپنے اس شکار کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہے۔ آیا اس شکار کو گدھ اور لگڑ بھگا کی طرح نوچ نوچ کر ترسا ترسا کے کھائیں گے یا پھر شاہین، عقاب کی طرح اپنی حیثیت، مرتبے، غلغلے اور شان کے ساتھ اپنے پنجوں میں اچک کر کسی محفوظ مقام پر لے جا کر پہلے اس کے سینے ہر بیٹھ کر، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر صاف کر کے شکم سیری کے لئے استعمال میں لائیں گے یا پھر شیر کی طرح جھپٹ کر، گرا کر، گلے سے دبوچ کر اچھے طریقے سے ٹھنڈا کر کے پہلے پیٹ سے کھانا شروع کریں کہ جو کچھ اس میں موجود ہے پہلے وہ باہر نکل کر آئے پھر ان کے باقی ماندہ وجود کو شیر کے شاہانہ انداز سے تکہ بوٹی کریں گے۔
لیکن اس دوران جو گیدڑ اور لومڑی اردگرد منڈلاتے ہیں ان کی موجودگی کو بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی بیچ بیچ میں حملہ کر کے تکہ بوٹی نوچنے کے جتن کرتے ہیں۔