صحت

”ماں بیک وقت چار چار بچوں کو بھی دودھ پلا سکتی ہے”

ناہید جہانگیر

پشاور شہر کی صداقت بی بی کو اللہ نے پچھلے سال 2 جڑواں بیٹوں سے نوازا ہے، ایک کو اپنا دودھ پلاتی ہیں جبکہ دوسرے بچے کو بکری کا دودھ دیتی ہیں کیونکہ ان کا اپنا خیال ہے، اور انہیں بتایا بھی گیا 2 بچوں کو دودھ پورا نہیں ہو گا اور جسمانی طور پر بھی وہ کمزرو ہو جائیں گی۔

صداقت کے مطابق ان کو کسی بھی ڈاکٹر نے ایسا کرنے کا مشورہ نہیں دیا کہ وہ 2 بچوں کو اپنا دودھ نہیں دے سکتیں بلکہ گھر کی بزرگ خواتین کے کہنے پر وہ اس طرح کر رہی ہیں۔

دوسری جانب سیما کا بیٹا آپریشن سے پیدا ہوا تھا تو جب ان کو ہوش آیا تو کافی دیر تک دودھ نا ہونے کی وجہ سے انہوں نے ڈبے اور گائے کا دودھ اپنے بچوں کو پلانا شروع کر دیا۔

اس حوالے سے پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے پیڈز ڈیپارٹمنٹ (شعبہ اطفال) کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امیر محمد نے بتایا کہ زیادہ تر مائیں خود بچوں کو دودھ نہیں پلانا چاہتیں، اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً جڑواں بچوں کو دودھ پورا نہیں ہو گا تو ایک کو پلاتی ہے جبکہ دوسرے بچے کو نہیں یا آپریشن سے بچہ پیدا ہوا ہے تو بچے کو دودھ دینے میں تاخیر کی وجہ سے اب ماں میں دودھ نہیں جو پلا سکے، یا ورکنگ خاتون ہے کوئی خاص یا مناسب جگہ نا ہونے کی وجہ سے بچے کو چھاتی کے دودھ کا عادی نہیں کیا جاتا اور ان تمام حالات میں بچے کو ڈبے، بکری یا گائے کے دودھ کا عادی بنایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر امیر محمد نے بتایا کہ ایک ماں 2 کیا 4 بچوں کو بھی ایک ہی وقت میں اپنا دودھ پلا سکتی ہے یعنی ایک چھاتی سے 2 بچے بہ آسانی فیڈ ہو سکتے ہیں، دوسری اہم بات دودھ پلانے والی مائیں اپنے فوڈ ٹیبوز (ممنوعہ خوراک) کو تبدیل کریں، بچے کی پیدائش کے فوراً بعد خاتون کو پرہیز شروع کرایا جاتا ہے کہ کیا کھایا جائے گا اور کیا کیا نہیں کھایا جائے گا، شروع دن سے لے کر پورے 40 دنوں تک مرغی کی یخنی پلائی اور کھلائی جاتی ہے جو بالکل غلط ہے کوئی ٹھنڈا گرم سخت نرم والا پرہیز نہیں کرنا چاہئے ہر چیز کھائی جائے کیونکہ متوازن خوارک نا ہونے کی وجہ سے بھی چھاتی کے دودھ پر اثر پڑتا ہے۔

ڈاکٹر امیرمحمد کے مطابق چھاتی کے دودھ کا تعلق برین (دماغ) سے ہے اور اس کے ہارمون پرولکٹین برین میں ہی بنتے ہیں تو جتنا سٹریس فل ماحول ایک ماں کو دیا جائے گا اتنا ہی اثر دودھ پر پڑے گا کیونکہ سٹریس ماحول میں ہارمون ڈسٹرب ہو جاتے ہیں، ان تمام وجوہات کا مطلب یہ نہیں کہ ماں ڈبے یا کھلے دودھ کی طرف مائل ہو جائے۔

ڈاکٹر کے مطابق جو خواتین ملازمت پیشہ ہیں ان کا آسان حل یہ ہے کہ وہ اپنا دودھ فریج میں رکھ کر 24 گھنٹے تک بچے کو پلا سکتی ہیں۔ جبکہ فریز کر کے ایک ہفتے تک اپنا دودھ محفوظ کر سکتی ہیں، بچے کو چھاتی کا دودھ پلانا کونسلنگ، آگاہی اور تربیت دینے پر انحصار کرتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں چھاتی کا دودھ بچے کو نا دینا ایک ٹرینڈ بنتا جا رہا ہے،
ماں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے اپنے دودھ کی کیا افادیت اور کیا کیا فوائد ہیں۔

ڈاکٹر کے مطابق ماں کا دودھ آب زم زم سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ آب زم زم زمینی چشمہ سے جبکہ دودھ اللہ نے زندہ انسان کے جسم سے پیدا کیا ہے۔ چھاتی کے دودھ میں لیونگ آرگینزم اور قوت مدافعت کے اجزا قدرتی طور پر موجود ہوتے ہیں تو یہ بچے 2 سال تک کو جو پروٹیکشین فراہم کرتا ہے ڈبے کا دودھ کبھی نہیں کر سکتا، ماں کا دودھ زندہ ہے مطلب یہ بچے کی حالت کے مطابق خود کو قدرتی طور پر تبدیل کرتا ہے جبکہ ڈبے کا دودھ ڈیڈ مِلک تصور کیا جاتا ہے۔

بچے کو دودھ پلانے سے چھاتی کے کینسر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے

ماہر امراض بریسٹ کینسر ڈاکٹر سلمیٰ غفار نے بتایا کہ جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ان میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، یہ حمل کے درمیان وقفہ کرنے میں بھی مدد کرتا ہے اور اس وجہ سے زچگی اور بچے کی صحت کے لیے متعدد فوائد ہیں۔

ڈاکٹر سلمٰی غفار کے مطابق چھاتی کے کینسر کے 50,302 کیسز اور 96,973 کنٹرولز کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ 30 ممالک کے 47 مطالعات کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر 12 ماہ کے بعد چھاتی کے کینسر کا خطرہ دودھ پلانے والی خواتین میں 4.3 فیصد کم ثابت ہوا اور اس کے علاوہ ہر دوسرے بچے کی پیدائش میں 7.0 فیصد کمی آئی۔ ان محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک عورت جتنی دیر تک بچے کو دودھ پلاتی ہے اتنا ہی وہ چھاتی کے کینسر کا خطرہ خود کم کرتی ہے، اور یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں طویل مدتی دودھ پلانے سے چھاتی کے کینسر کی شرح میں کافی حد تک کمی دیکھنے کو ملی۔

انہوں نے کہا کہ ہر عورت اپنے بچے کو کم از کم 2 سال تک اپنا دودھ ضرور پلائے، اس کا کوئی نقصان نہیں بلکہ ان کے اور ان کے بچے کو جسمانی طور پر فائدے ہی فائدے ہیں، اس طرح، بچوں کو دودھ پلانے سے صحت کے فوائد کے علاوہ، خواتین طویل عرصے تک دودھ پلانے کو برقرار رکھ کر چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہیں،
ماں کے دودھ میں خود بخود گرمی میں پانی کا اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ سردی کے موسم میں پانی کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور ماں کو پتہ بھی نہیں چلتا، اگر بچے کو بخار یا بیمار ہو جائے تو جیسے ہی ماں کا دودھ استعمال کرتا ہے اسے ماں کے مدافعتی نظام سے قدرتی دوائی کے اجزا مل جاتے ہیں تو اس لئے ڈبے کے دودھ کا آپس میں موازنہ کیا جا سکتا ہے لیکن ماں کے دودھ کے ساتھ کبھی بھی نہیں، بچے کو ڈبے کا کھلا دودھ دینے سے پہلے کسی بھی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے۔

اسلام میں ماں کے دودھ کے حوالے سے حکم

مفتی غلام ماجد سینئر ریسرچ آفیسر اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد نے اس حوالے سے بتایا کہ ماں کے اپنے دودھ پلانے کے حوالے سے قران و سنت اور اسلام میں بہت نمایاں احکامات ہیں، قرآن پاک میں ایک آیات ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ہم نے موسٰی علیہ سلام کی والدہ کی طرف یہ وحی کی کہ آپ اپنے بچے کو اپنا دودھ پلائیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے وحی کے زریعے عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا دودھ بچوں کو پلائیں۔ ایک جگہ ارشاد ہے کہ؛ جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو بہت سی چیزوں کے علاوہ ایک یہ بھی ہے کہ دودھ پلانے والی عورت اپنے بچوں کو دودھ پلانا بھول جائیں گی۔ ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلانا بھول ہی نہیں سکتی یہاں تک کہ قیامت کی گھڑی آ جائے۔ اس میں قیامت کی ہولناکی بیان کی گئی ہے یعنی ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلانا بھول جائے قیامت جیسی ہولناک ہے۔ ایک اور جگہ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ والدہ اپنے بچے کو پورے 2 سال تک دودھ پلائیں۔

مفتی ماجد نے کہا کہ پس ثابت ہوا کہ ماں بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہیں تو اس میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے اس کو ماننا چاہئے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے۔

گائے، بکری کا دودھ پینے والے بچے خون کی کمی کا شکار ہو سکتے ہیں

پشاور لیڈی ریڈنگ میں بطور نیوٹریشینسٹ کام کرنے والی اسسٹنٹ پروفیسر بشریٰ کہتی ہیں کہ ماں کا دودھ بچے کے لئے بہترین غذا ہے، یہ ہر طرح سے غذائیت اور مقدار کے لحاط سے مکمل ہے، اس میں وہ تمام اجزا شامل ہیں جو بچے کی نشونما کے لئے ضروری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو مائیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں ان کا بچہ قدرتی طور پر تمام بیماریوں سے بچا رہتا ہے کیونکہ ماں کا دودھ بچے کی قوت مدافعت بڑھنے کا باعث بنتا ہے۔

ڈاکٹر بشریٰ کے مطابق ماں کے دودھ کا مقابلہ کوئی بھی ڈبے یا جانور کا دوددھ نہیں کر سکتا، مثال کے طور پر گائے کے دودھ میں پروٹین، کیلشیم اور فاسفورس زیادہ ہیں جو بچہ پوری طرح سے ہضم نہیں کر سکتا جب وہ ہضم نہیں کر سکتا تو بچے کے لئے نقصان کا باعث بنتے ہیں جبکہ ڈبے کا دودھ کسی حد تک زود ہضم ہے لیکن پھر بھی ماں کے دودھ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

اسسٹنٹ پروفیسر بشریٰ نے بتایا کہ ماں کا دودھ بچے کو ہر قسم کی الرجی سے بچاتا ہے، وٹامن اے وافر مقدار میں موجود ہونے کی وجہ سے قے دست اور خسرہ ہونے کی صورت میں بہت فائد مند ہوتا ہے جبکہ گائے و بکری کے دودھ میں فولک ایسڈ نہیں ہوتا جو خون کے بننے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button