کرسی کی چاہ اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار
حمیراعلیم
مجھے سیاست خصوصاً پاکستانی سیاست سے رتی برابر دلچسپی نہیں۔ اس کی وجہ موجودہ سیاستدانوں کی لادینیت، ڈھٹائی، بدکرداری، بدچلنی اور کرپشن ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود بعض اوقات کچھ نہ کچھ ایسا سامنے آ ہی جاتا ہے جو ان سے نفرت میں اضافہ کرتا ہے۔ کل کسی کی پوسٹ میں دو صحافی حضرات رانا ثناء اللہ نامی ایک سیاستدان کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ موضوع گفتگو نواز شریف کا استقبال تھا۔ موصوف فرماتے ہیں: "ان کا استقبال حج سے بھی زیادہ اہم ہے۔” نعوذ باللہ
اس کو کہتے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار۔ کرسی کی چاہ اور منسٹری اتنی بری چیزیں ہیں کہ انسان کو اس حد تک گرا دیتی ہیں کہ وہ شعائر اللہ کی گستاخی پہ نہ صرف آمادہ ہو جاتا ہے بلکہ اس گناہ پہ اکڑ بھی جاتا ہے تاکہ اس کے مالک کی نظر میں اس کی وفاداری مشکوک نہ ہو۔ وہ ایسے گناہ کے ارتکاب کے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا رب اللہ تعالٰی ہے جس کے قبضے میں اس کی زندگی و موت اور رزق ہے نہ کہ ایک کرپٹ اور گناہگار انسان جو اپنی جان بچانے کیلئے بیرون ملک منہ چھپا کے بیٹھا ہے، جو اپنے آپ کو قانون دنیا سے نہیں بچا سکتا وہ اللہ کا سامنا کیسے کرے گا؟
جب رانا صاحب کو موت کا فرشتہ لے جانے آئے گا تو کوئی شریف ان کو بچا نہ سکے گا نہ ہی روز قیامت وہ پاکستانی کورٹ کے کسی جج کو اتوار کے دن لائن حاضر کر کے اپنی مرضی کا فیصلہ لے سکیں گے۔
اگر یہ الفاظ کسی عام شہری کے منہ سے نکلے ہوئے ہوتے تو علماء فوراً اس پہ گستاخی دین کا فتوی صادر کر دیتے اور عاشق رسول و خدا عوام اسے زندہ جلا چکی ہوتی۔ لیکن چونکہ یہ الفاظ ایک سیاستدان کے منہ سے ادا ہوئے اس لیے سب کے کان اور منہ بند رہے۔ (عوام کسی عام فرد یا کسی بااثر کے خلاف قانون ہاتھ میں لیں، مناسب و جائز نہیں)
بین الاقوامی سطح پہ دیکھے جانے والے پروگرام پہ کسی عالم نے بیان دینا مناسب نہ سمجھا۔ کاش! ہمارے علماء ہی اپنا فرض درست طریقے سے ادا کر لیتے تو بھی شاید ملک کچھ بہتر حالت میں ہوتا ایسے لادین اور گستاخ جانوروں کے رحم و کرم پہ نہ ہوتا جو سورہ اخلاص کی تلاوت نہیں کر سکتے اور جن کیلئے حج جیسے اہم فریضے سے بڑھ کر ایک کرپٹ شخص کے دربار میں حاضری اہم ہے۔ جن کی گاڑی سے کئی کلو ڈرگز پکڑی جاتی ہیں مگر وہ باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ جن کے کمروں سے شراب برآمد ہوتی ہے اور شہد و زیتون کے تیل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جو نامحرم خواتین کے ساتھ غیراخلاقی حرکات کرتے ہیں مگر باعزت کہلاتے ہیں۔
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کہ جو خودکش اسکولز، بازاروں اور مساجد و امام بارگاہوں پہ حملے کر کے معصوم لوگوں کو شہید کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک ریڈ زون عبور کر کے اسمبلی میں اس وقت پہنچ جائے جب اس کا کورم پورا ہو تاکہ خس کم جہاں پاک ہو۔
نوٹ: ہمیں یقین ہے کہ حمیرا علیم کی ایسی کوئی خواہش نہیں ہو گی تاہم ان سخت کلمات یا ایسی بھیانک خواہش کے اظہار سے اس کوفت و تکلیف کا احساس ہوتا ہے جو مذکرہ سیاستدان کے بیان سے انہیں پہنچی ہے۔ بہرکیف یہ مصنفہ کے اپنے خیالات ہیں جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔