پشاور اور غیرپشتون افغان مہاجرین: زبانِ یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
نوریہ بازوان
افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد افغان مہاجرین بڑی تعداد میں پشاور اور ملک کے دیگر حصوں میں آ کر پناہ گزیں ہوئے ہیں جن میں پشتونوں کے ساتھ ساتھ تاجک، ازبک اور ہزراہ برادری کے لوگ بھی شامل ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ پشاور اور دیگر علاقوں میں پشتو اور اردو زبان کی سمجھ بوجھ نا رکھنے کی وجہ سے انہیں متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم کابل کی رہائشی فرحت، جو نسلاً تاجک ہیں، کہتی ہیں کہ پشتو اور اردو زبان کی سمجھ نا رکھنے کی وجہ سے وہ متعدد مسائل سے دوچار ہیں اور زبان کی تفہیم نا ہونے کی وجہ سے وہ گھر کے لئے سودا سلف لے سکتی ہیں نا ہی ڈاکٹر کو اپنی شکایت بیان کر سکتی ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اجرت پر ایک ترجمان ساتھ رکھا ہوا ہے، ”میں جب پاکستان آئی تو لوگوں کے ساتھ گھل ملنا میرے لئے مشکل تھا کہ میرے لئے سب سے بڑا مسئلہ زبان کا تھا کیونکہ میں جب بھی باہر جاتی تھی تو لوگوں کے ساتھ بول چال میں مسئلہ ہوتا تھا، میں ڈاکٹر کے لئے بھی ترجمان کو ساتھ لے کر جاتی تھی جس کے بدلے وہ مجھ سے پیسے لیتا تھا۔”
فرحت مزید بتاتی ہیں کہ پاکستانی عوام سے الگ رسم و رواج اور لباس کی وجہ سے بھی وہ کافی مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں، ”پاکستان اور ہمارے رسم و رواج میں بہت زیادہ فرق ہے، جو لباس ہم افغانستان میں زیب تن کرتے ہیں وہ ہم یہاں نہیں پہن سکتے، اور ہم پنجابیوں کا لباس پہننے پر مجبور ہیں۔”
فرحت کی طرح اور بھی ایسے کئی افغان مہاجرین ہیں جو زبان نا سمجھنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، انہی لوگوں میں کابل کے رامین نوری بھی شامل ہیں۔ رامین کے مطابق زبان نا جاننے کی وجہ سے لوگ ان کی مجبوریوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ بعض اوقات اپنے ثقافتی لباس کی وجہ سے انہیں پولیس بھی تنگ کرتی ہے، ”جب کبھی میں سودا لینے دکان جاتا تو وہاں جو چیز سو روپے میں ملتی تھی وہی چیز ہمیں دو، تین سو روپے میں دیتے تھے، یہاں لوگوں کی اکثریت افغان مخالف ہے، جب ہم نئے نئے پاکستان آئے تو میں بلاؤز اور پتلون پہنتا تھا، اس کی وجہ سے لوگ بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے تھے، اور اک روز جب میں پولیس چیک پوسٹ سے گزر رہا تھا تو وہاں مقامی لوگوں کی تلاشی نہیں لی جا رہی تھی لیکن افغانی لباس کی وجہ سے مجھے وہاں کافی دیر روکا گیا۔”
رامین کے بقول یہاں افغان مہاجرین کے ساتھ ان کی سمجھ بوجھ، زبان اور نسل کی وجہ سے بدسلوکی کی جاتی ہے اور اس کی زندہ مثال چند روز قبل ایک کنسرٹ میں ان کی شرکت تھی (جہاں) دعوت نامے کے باوجود انہیں (شرکت کی) اجازت نہیں دی گئی، ”کل بھی ادھر ہم ایک کنسرٹ میں جا رہے تھے اور ہمارے پاس اس کنسرٹ کا کارڈ بھی تھا لیکن اس کے باوجود ہمیں کنسرٹ میں جانے نہیں دیا گیا، اور ہمیں بتایا گیا کہ یہاں افغانوں کو اجازت نہیں ہے، ہماری توقع ہے کہ یہاں کے عوام اور پولیس افغان مہاجرینوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔”
رامین مزید کہتے ہیں کہ الگ ثقافت، زبان اور رسم و رواج کے باعث انہیں روزگار بھی نہیں ملا ہے اور یہ کہ اس بار وہ نوروز کا جشن بھی ٹھیک طرح سے نہیں منا سکے، ”اک روز چاہا کہ اپنے لئے کوئی کام ڈھونڈ سکوں لیکن جب باہر نکلا تو یہ اندازہ ہوا کہ یہاں کہ اپنے پاکستانی بھی روزگار کی عدم موجودگی کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں، امسال نیا سال بھی بے رنگ/پیکا تھا، ہم نے اس بار نوروز نہیں منایا، وہاں تھے تو پارکوں میں جا کر نوروز کی خوشیاں مناتے تھے لیکن اس بار یہاں ہم ہر چیز سے محروم رہے ہیں۔”
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں افغانستان کے صوبہ لغمان سے تعلق مگر کابل میں پیدا اور وہاں تعلیم حاصل کرنے والی قندی صافی کا کہنا تھا کہ آج سے 23 سال قبل جب افغان طالبان کا پہلا دور آیا تو ہم پشاور چلے آئے، ادھر پشاور میں ہم کوشش کر رہے ہیں، ادھر ہم نے پشتون خواتین کی ایک تحریک کا آغاز کیا ہے کہ افغانستان میں یا یہاں جو پشتون خواتین جو ہمارے ساتھ متفق ہیں اور ہمارا یہ آئین مانتی ہیں، ہماری اس تحریک کا حصہ ہیں تو ہمارے آئین میں ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ ہم پشتونوں کی اگر کوئی اپنی ثقافت ہو، دانش یا کچھ اچھے رواج ہیں تو انہیں زندہ رکھیں اور انہیں فروغ دیں، تو ان میں اگر ہم دیکھیں تو نوروز جو ہے وہ افغانستان یا تاجکستان، یا افغانستان کے شمالی علاقہ جات یا تاجسکتان، ان علاقوں تک محدود نہیں ہے، آج سے کئی سال پہلے خوشحال بابا جو ایک پشتون شاعر ہیں، انہوں نے اپے اشعار میں نوروز کا ذکر کیا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نوروز ماضی میں یہاں بھی منایا جاتا تھا، ”تو اب ہماری کوشش ہے کہ اپنے یہ تاریخی جشن یا اپنی ثقافتی چیزوں کو ہم محفوظ کریں، ان کو زندہ رکھیں، تو ہم نے گزشتہ سال بھی پشاور میں یہ دن منایا تھا اور بہت ساری افغان خواتین ہمارے ساتھ تھیں اور اس سال بھی دونوں طرف کی خواین نے، یہاں بھی ساری دوستوں اور بہنوں نے اس جشن میں ہمارا ساتھ دیا، انہوں نے بھی ہمارے ساتھ مل کر اس روز خوشیاں منائی تھیں۔”
قندی صافی کے مطابق ان لوگوں کا بھی یہ عقیدہ ہے، ہماری جو مردان سے یا یہاں کی بہنیں ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ نوروز ہمارا بھی ہے اور ہم چاہتی ہیں کہ اس جشن کو یہاں پھر سے زندہ کریں، ”پاکستان اور افغانستان میں نوروز کے جشن منانے میں کافی فرق پایا جاتا ہے، وہاں ہم یہ جشن مناتے تو عام تعطیل ہوتی تھی، ریاستی/حکومتی سطح پر یہ دن منایا جاتا تھا، یہاں پھر اس طرح سے لوگ اس دن کو نہیں مناتے، یہ فراموش کر چکے ہیں، حکومتی سطح پر تو یہ دن بالکل بھی نہیں منایا جاتا تو فرق بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی ہماری کوشش ہے کہ اپنے اس دن کو زندہ رکھیں، اپنی ساری ثقافت، اپنی پوری دانش، جو ہماری زبان، ثقافت، دانش، اور ہمارے جشن ہیں، جو ہمارے تاریخی دن ہیں تو ہم سب افغانوں کو چاہیے کہ خواہ ہم دنیا کے جس بھی کونے میں ہیں یا جس بھی حصے میں ہیں، جہاں بھی ہم مسافر ہیں، مہاجر ہیں تو اپنے یہ رسم و رواج اور اپنے یہ تاریخی جشن زندہ رکھیں۔”
ان مہاجرین کو امید ہے کہ اگر یہاں کے لوگ اور حکومت ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور زبان سیکھنے میں ان کے ساتھ تعاون کریں تو ان کے بہت سارے مسائل ختم ہو جائیں گے۔