عدم اعتماد: فیصلے کی گھڑی اور سپریم کورٹ کے پانچ ممکنہ فیصلے
محمد فہیم
اتوار کے روز ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے آرٹیکل 5 کا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کی جانب سے جمع تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی اور اجلاس ملتوی کر دیا جس کے بعد وزیر اعظم کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کا اختیار بحال ہو گیا اور وزیرا عظم عمران خان نے فوری طور پر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے خط لکھ دیا جس کے بعد صدر پاکستان نے اسمبلی تحلیل کر دی۔
ایوان کی کارروائی معمول کے مطابق کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی ہے لیکن اتوار کے روز ایوان کی کارروائی سے لے کر صدر کے دستخط تک کا معاملہ برق رفتاری سے پایا تکمیل تک پہنچا جس کے بعد اپوزیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ اتوار کے روز سپریم کورٹ کے تالے کھول دیئے گئے اور چیف جسٹس عمر عطابندیال نے پیپلز پارٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی آئینی درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کرتے ہوئے سماعت کا آغاز کر دیا۔ معاملہ اتنی تیزی سے آگے بڑھا کہ اپوزیشن کو فوری انصاف کا یقین ہو گیا اور وہ ایوان میں ہی بیٹھے رہے۔ انہوں نے امید لگا لی کہ فوری طور پر کوئی مختصر فیصلہ آ جائے گا تاہم معاملہ اس کے برعکس ہوا اور اپوزیشن نے جس فیصلہ کے چند گھنٹوں میں آنے کی امید لگائی تھی آج اسے 5 روز مکمل ہو جائیں گے۔ جمعرات کے روز یعنی آج اس کا فیصلہ آنے کا امکان ہے تاہم اب بھی یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ فیصلہ آج ہی آئے گا۔
حکومتی دلائل آرٹیکل 5، 95 اور 69 کے گرد گھوم رہے ہیں
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش ہونے والی والی ٹیم میں انصاف لائرز فورم کے مرکزی سیکرٹری جنرل ایڈوکیٹ شاہ فیصل الیاس شامل ہیں، اس معاملہ کو وہ انتہائی سادہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 5 دراصل ریاست سے وفاداری کا ہے، سپیکر کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ قرارداد جو آرٹیکل 95 کی رو سے جمع کرائی گئی ہے اس میں بیرونی عناصر ملوث ہیں تو آرٹیکل 5 کے تحت سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے اور یہ اختیار سپیکر کو اسمبلی رولز 2007 اور آئین پاکستان دیتے ہیں۔
شاہ فیصل الیاس آرٹیکل 69 کے بارے میں کہتے ہیں کہ 2 اپریل کو ایک فیصلہ میں سپریم کورٹ نے خود کہا ہے کہ وہ ایوان کے اندر کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی لہٰذا یہ معاملہ بھی ایوان کے اندر کا ہے اور سپریم کورٹ اس معاملہ میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ انصاف لائرز فورم کے ایڈوکیٹ شاہ فیصل اتمانخیل اس حوالے سے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ صرف اور صرف غیرقانونی اقدام کو دیکھے گی، کسی بھی خلاف ضابطہ کارروائی میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کر سکتی تاہم اگر کوئی غیرقانونی یا غیرآئینی اقدام ہوا ہے تو سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔
اپوزیشن آرٹیکل 6 پر عمل درآمد کی خواہشمند
ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر اپوزیشن عدالت سے انصاف کی فراہمی کیلئے پرامید ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے وکیل اور ”ملگری وکیلان” کے رہنما ایڈوکیٹ طارق افغان کہتے ہیں کہ قاسم سوری کا اقدام سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا تھا، ایک دن کے وزیر قانون فواد چوہدری نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ایک تحریر کو پڑھا اور اس کے بعد قاسم سوری نے سپیکر اسد قیصر کیلئے لکھی گئی تحریر پڑھ دی لیکن حد تو اس وقت ہوئی جب اسد قیصر کا نام بھی قاسم سوری نے پڑھ کر سنا دیا۔
طارق افغان کے مطابق 197 ارکان پارلیمان پر غداری کا الزام انتہائی افسوس ناک ہے اور اس الزام کی آڑ میں حکومت دراصل آئینی شکنی کی مرتکب ہوئی ہے، سپیکر نے اپنے مفادات کیلئے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیا اس کے بعد وزیر اعظم نے اپنے مقاصد کیلئے اسمبلی کی تحلیل کی سفارش صدر کو بھیجی اور صدر نے پارٹی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسمبلی تحلیل کر دی، ان تمام افراد پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے جس کی رو سے ان تینوں کو سزائے موت ہو سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کیا فیصلہ دے سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور ممتاز قانون دان ایڈوکیٹ معظم بٹ سپریم کورٹ کے فیصلے سے باخبر ہیں اور کہتے ہیں کہ ماضی کو دیکھتے ہوئے 5 ایسے ممکنات ہیں جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو سکتے ہیں۔ معظم بٹ کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے حوالے سے اور کہا گیا کہ ماضی کے معاملات پر بات نہیں ہو گی پھر ریویو آیا اور اس فیصلے پر بات نہیں ہو گی پھر دوبارہ افتخار چوہدری بحال ہوئے اور سپریم کورٹ پھر بیٹھی اور کہا کہ اس دوران سپریم کورٹ تھی ہی نہیں اور یہ سجھا جائے گا کہ سپریم کورٹ نے اس دوران کوئی فیصلہ دیا ہی نہیں تو ایک فیصلہ یہ بھی آ سکتا ہے کہ اتوار کے روز جہاں سے معاملات رک گئے تھے وہیں سے شروع کئے جائیں گے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی یعنی اتوار سے جمعرات تک یہ سمجھا جائے گا کہ کوئی معاملہ آگے بڑھا ہی نہیں ہے۔
معظم بٹ کے مطابق دوسرا ممکنہ فیصلہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ماضی سمجھ کر اس پر بحث ہی ختم کر دی جائے گی اور آگے بڑھا جائے گا جبکہ اس کا طریقہ کار بھی سپریم کورٹ وضع کرے گی اور اختیار سپیکر کو دیتے ہوئے قانون کے مطابق معاملہ بڑھانے کی ہدایت کی جا سکتی ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ محمد خان جونیجو کے کیس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ غلط طریقہ سے اسمبلی ختم کی گئی لیکن الیکشن تیار ہے اور عوام بھی تیار ہے لہٰذا الیکشن کرائے جائیں تو سپریم کورٹ آج الیکشن کی جانب جانے کی ہدایت بھی کر سکتی ہے۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ یہ معاملہ ریفرنڈم میں آتا نہیں ہے تو عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ اللہ کے بعد طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں لہٰذا یہ معاملہ عوام کے پاس لے جایا جائے اور انتخابات کرائے جائیں جبکہ آخری اور پانچویں صورت یہ بنتی ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے جو اس معاملہ کی تحقیقات کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائے جس کے بعد سپریم کورٹ اس پر فیصلہ کرے گی۔