پشاور میں کرایہ کا مکان: صرف نئے افغان ہی نہیں پاکستانی بھی پریشان
تیمور خان، طیب محمد زئی
گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان آنے والے نئے افغان پناہ گزین ہی نہیں بلکہ مقامی لوگ بھی پشاور میں کرایہ کا گھر نا ملنے اور زیادہ کرایوں کی شکایت کرتے ہیں۔
پشاور کے علاقے حیات آباد میں رہائش پذیر چارسدہ سے تعلق رکھنے والی صائمہ کے مطابق گھر میں بچوں کی تعداد میں اضافے کے بعد وہ ایک اور کرایے کا مکان لینے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن جب سے افغان مہاجرین پشاور آئے ہیں انہیں گھر حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، اور اگر کوئی مکان مل بھی جاتا ہے تو کرایہ ان کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے، ”جس گھر میں ہم اس وقت رہ رہے ہیں یہ اب ہمارے لئے چھوٹا پڑ گیا ہے کیونکہ ہمارے بچے زیادہ ہو گئے ہیں، یہاں کرایے کا گھر بہت مشکلوں سے ملتا ہے کیونکہ جب یہاں افغان مہاجرین آئے تو کرایوں میں بے پناہ اضافہ ہوا، پھر جب وہ واپس چلے گئے تو اچھے اچھے مکانات ملنا شروع ہوئے اور کرایہ بھی بہت مناسب ہوتا تھا، لیکن اب ایک بار پھر اول تو کرایے کا مکان ملنا بہت مشکل بات ہے، ملتا نہیں آسانی سے، دوسری بات یہ ہے کہ اب کرایے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ہمارے بس سے باہر ہو گئے ہیں، بہت مشکل حالات میں ہم گزارہ کر رہے ہیں۔”
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں صائمہ نے بتایا کہ اگرچہ بعض افغان مہاجرین بہ امر جبوری مہنگے کرایہ پر مکان لیتے ہیں لیکن ان میں سے ایسے بھی افغان پناہ گزین ہیں جو یہ کرایے برداشت کر سکتے ہیں، ”افغانوں کو مسئلہ اس لئے بھی نہیں ہوتا کہ ان کا کوئی نا کوئی فرد بیرون ملک ہوتا ہے، وہ رکھ سکتے ہیں اپنی فیملیز کو یہاں لیکن ہم، جو یہاں کے اصل باشندے ہیں، ہمارے لئے یہ مشکلات پیدا کرتا ہے کیونکہ ہمارا اتنا بس نہیں چلتا۔”
ملاکنڈ کے امیر اللہ ایڈوکیٹ پشاور ہائی کورٹ مں پریکٹس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے بھی افغان مہاجرین کی طرح قانونی دستاویزات مکمل کرنے کے بعد بڑی مشکل سے کرایے پر گھر لیا ہے، ”مشکلات تو بے شمار ہیں، سب سے پہلے تو یہاں کرایے کا گھر ملتا ہی نہیں ہے اور اگر مل بھی جائے تو کرایہ اتنا مانگتے ہیں جو ہمارے بس سے باہر ہوتا ہے، پہلے جب آپ اک ضلع سے دوسرے ضلع آتے تھے تو آپ کو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے آپ اپنے گاؤں میں ہیں، اب جب آپ کسی دوسرے ضلع میں گھر کرایہ پر لیتے ہیں تو اول تو سٹامپ پر لکھ کر لیتے ہیں، مالک کے ساتھ بھی سٹامپ پیپر لکھنا پڑتا ہے جس پر ناظم کے دستخط ہوں گے اور تھانے کو یہ ویریفیکیشن بھی دو گے کہ میں ایک پرامن شہری ہوں اور یہ یہ میرا کام اور یہ میرا روزگار ہے۔”
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں امیراللہ نے بتایا کہ نئے افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد پشاور میں اول تو کرایے کا مکان ملتا ہی نہیں ہے اور اگر کہیں مل بھی جاتا ہے تو کرایہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ جو غریب آدمی کے بس سے باہر ہوتا ہے، اور دوسرا یہ کہ پہلے افغان مہاجرین کیمپوں میں رہتے تھے لیکن اس مرتبہ ان کے لئے یہ بندوبست نہیں کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھی کرایے کے گھروں میں رہ رہے ہیں، ”افغان مہاجرین کے ساتھ تو صرف کرایوں میں ہی نہیں ہر ایک چیز میں کافی مشکلات آئی ہیں لیکن ہم خصوصی طور پر یہی کہیں گے کہ پہلے جو گھر پانچ ہزار پر ملتے تھے اب وہ پندرہ ہزار میں بھی نہیں مل رہے، پہلے جب یہ لوگ آتے تھے تو کیمپوں میں رہتے تھے لیکن اب وہ کیمپ اجڑ گئے ہیں یا ختم ہو گئے ہیں تو یہ بھی ہم لوگوں کی طرح بندوبستی علاقوں میں گھر کرایہ پر لے کر رہتے ہیں، اور اسی وجہ سے اول تو گھر کرایہ پر ملتے ہی نہیں ہیں، بڑی مشکلوں سے ملتے ہیں لیکن اگر مل بھی جائیں تو وہ آپ کے بس سے باہر کی بات ہوتی ہے۔”
دوسری جانب پشاور کے علاقہ حیات آباد میں گھر کرایہ پر دینے والے آصف ایوب کہتے ہیں کہ مہنگے داموں گھر کرایہ پر دینے کی ایک بڑی وجہ اس طرح کے گھروں کی کمی ہے، ایک سال قبل یہ گھر کرایہ پر لئے جا چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغان مہاجرینوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی شہریوں کے کرایہ پر گھر لینے کے حوالے سے بھی مشکلات سامنے آئی ہیں، ”کوئی سال ڈیڑھ سال ہو گیا ہے کہ ہمارے پاس گھروں کی بہت شارٹیج/کمی آئی ہے، رینٹ والے گھر ہمارے پاس بہت کم ہو گئے ہیں، پہلے سے جو موجود لوگ ہیں تو ان میں سے بعض گھر چھوڑتے ہیں بعض نہیں چھوڑتے تو اس حوالے سے باہر سے جب لوگ آتے ہیں، دیہات سے یا کسی کا اگر پشاور ٹرانسفر ہو جائے یا یہاں سے کسی کا ٹرانسفر ہو جائے تو ہر کوئی سہولیات کو دیکھتا ہے تو اسی باعث گھروں کی کمی کی وجہ سے کرایوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن ایسا صرف افغانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ جو اس ملک کے باشندے ہیں جن کے پاس پاکستان کی شہریت ہے ان کے لئے بھی یہ کرایے مہنگے ہیں، یہ غلط بات ہے کہ اُن کے لئے (افغان) تو زیادہ کرایہ اور اِن کے لئے (پاکستانی) کم ہو گا۔”