پشاور: نئے افغان مہاجرین گھر کرایہ پر لینے سے قاصر کیوں؟
نوریہ بازوان
گزشتہ برس حکومت کی تبدیلی کے بعد سے لاکھوں افغان شہریوں نے دیگر ممالک کا رخ کیا ہے اور آج بھی متعدد/بے شمار افغان ایسے ہیں جو اس (ملک سے باہر جانے کی) کوشش میں ہیں۔ ان افغانوں میں سے بیشتر ادھر پاکستان آئے ہیں اور مختلف زرائع کے مطابق ان کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے۔
پاکستان آنے والے یہ نئے افغان زیادہ تر یہاں پہلے سے مقیم اپنے رشتہ داروں کے ہاں آباد ہوئے ہیں، یا انہوں نے گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلوں میں رہائش اختیار کی ہے اور یا پھر انہوں نے کرایے پر گھر لے رکھے ہیں۔
رشتہ داروں یا پھر ہوٹلوں میں رہائش پذیر مہاجرین میں بھی زیادہ تر ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہ کرایہ پر گھر لے لیں تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔
پشاور یا خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں کرایہ پر گھر لینے کے لئے نا صرف افغان مہاجرین بلکہ پاکستاننی شہریوں کے لئے بھی متعلقہ تھانے میں اپنی رجسٹریشن کرانا لازمی ہوتا ہے۔ افغان مہاجرین اپنی یہ رجسٹریشن کس طرح کروا سکتے ہیں اس حوالے سے پشاور پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن کے علاوہ انہیں دو پاکستانی شہریوں کی ضمانت بھی درکار ہوتی ہے، ”طریقہ کار یہ ہے کہ جب وہ کرایہ پر گھر لینا چاہیں تو اس کے لئے انہیں ٹیننٹ (کرایہ دار) فارم بھرنا ہوتا ہے اور یہ جتنے افراد ہوتے ہیں، مثلاً بیوی، بیٹیاں، بیٹے اور خاوند، ان سب کے افغان کارڈ فارم کےساتھ لف کرنا ہوتے ہیں، دوسرے ایک سٹامپ پیپر بھی ضروری ہوتا ہے کہ اتنے عرصہ کے لئے اتنے کرایہ پر یہ گھر لیا ہے، اس کے علاوہ دو مقامی گواہان ضروری ہوتے ہیں اور کسی سترہ گریڈ افسر یا متعلقہ ناظم سے اس کی (فارم) تصدیق ضروری ہوتی ہے۔”
افغانستان سے آنے والے نئے افغان مہاجرین میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں لہٰذا ان کے لئے کرایہ پر گھر لینا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں صدام گل کا خاندان بھی شامل ہے لیکن اس کے باجود یہ لوگ کرایہ پر گھر لینے میں کامیاب ہوئے ہیں، ”اب تو ہم یہاں کرایہ پر رہ رہے ہیں، یہ مشکل کہ ہمارے پاس کارڈ نہیں تھے، شناختی کارڈ یا اس طرح کی کوئی اور دستاویز تو اس وجہ سے کرایہ پر گھر لینے میں تھوڑی تاخیر ہوئی، کسی اور کے شناختی کارڈ پر گھر کرایہ پر لیا ہے، کارخانو مارکیٹ میں ہمارے چچازد رہتے ہیں تو ان کی وساطت سے یہ گھر کرایہ پر لیا ہے، پھر بھی اس میں کوئی پندرہ بیس دن لگ گئے تھے۔”
صوبہ ننگرہار کے رہائشی سمیر بھی اپنی فیملی کے ہمراہ پشاور ہجرت کر کے آئے ہی اور یہاں اپنے ننھیال (ماموں) کے ہاں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے یں کہ گھر کرایہ پر لیں لیکن زیادہ کرایوں کی وجہ سے انہیں کامیابی نہیں ملی جس کی وجہ سے مجبوراً وہ اپنے ماموں کے ہاں شب و روز بسر کر رہے ہیں، ”گھر تو اس وجہ سے پیدا نہیں کر سکے کہ ایک تو بہت زیادہ افغان ادھر آئے ہیں اور دوسرے کرایہ بہت زیادہ ہوتا ہے، اگر کسی گھر کا کرایہ گزارہ حال بھی ہوتا ہے تو پھر اس مکان کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہاں سکونت اختیار کی جا سکے۔”
سمیر کے مطابق وہ کارخانو مارکیٹ کی ایک دکان میں ملازمت کر رے ہیں اور انہیں جو اجرت ملتی ہے اس پر ان کا اپنا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے کیونکہ ایک تو کھانے پینے کا خرچ تو دوسرے ڈاکٹروں کی فیسیں انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ کرایہ پر گھر لے سکیں، ”ہمارا سات افراد پر مشتمل گھرانہ ہے، میری اتنی تنخواہ ہے، اتنے پیسے ملتے ہیں اس دکان سے جہاں ملازمت کرتا ہوں کہ بمشکل ہمارا اپنا گزارہ ہوتا ہے کیونکہ مجھے گھر کے تمام افراد کی ضرورتیں پوری کرنا ہوتی ہیں، کبھی دوا دارو کی بھی ضرورت پڑ جاتی ہے، گھر کا کرایہ ہو جاتا ہے، گھر کے لئے سودا سلف بھی چاہیے ہوتا ہے اس لئے مشکلات بہت ہیں اور میرے لئے ایسا ممکن نہیں (کہ ان کے اخراجات کے ہوتے ہوئے گھر کرایہ پر لے سکوں)۔”
گو کہ پشاور یا خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں بعض افغان مہاجرین گھر کرایہ پر لینے میں کامیاب ہوئے ہیں تاہم ایسے بہت سے افغان مہاجرین بھی ہیں جنہیں قانونی دستاویزات، رجسٹریشن، ضمانت اور زیادہ کرایوں کی وجہ سے اس ضمن میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔