ماخام خٹک
عدم اعتماد سے پہلے عمران خان کی آخری تقریر آن ائیر جا چکی ہے جس پر سابقہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ عمران خان لہرا لہرا کے جو خط دکھا رہے ہیں وہ اندرونی کیبل ہے۔ سابقہ سیکرٹری و وزیر خارجہ شمشاد احمد نے اسے سفارتی مراسلہ قرار دیا۔ سابقہ وزیر خارجہ آصف خواجہ نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات کی ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود عمران خان اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ امریکہ نے ان کو دھمکی دی ہے۔
اب اگر ہم مان بھی جائیں کہ امریکہ نے عمران خان کو دھمکی دی ہے تو اس کے ساتھ بہت ساری باتوں کا تجزیہ کرنا ہو گا۔ اگر وہ باتیں موجود ہیں تو ذہن اس بات پر مائل بلکہ قائل ہو گا کہ امریکہ نے تب دھمکی دی ہو گی جیسے کہ آئی ایم ایف کی لاکھ کوششوں کے باوجود عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں کیا تو ممکن ہے امریکہ ناراض ہو، سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے زیر تسلط نہیں لایا، ممکن ہے امریکہ اس بات پر ناراض ہو!
اسی طرح عمران خان کے دور حکومت میں سی پیک پر کام زور شور سے جاری رہا ہے تو ممکن ہے اس پر امریکہ عمران خان سے ناراض ہو۔ حالیہ او آئی سی کے دوران عمران خان حکومت نے امریکہ کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نمائندے کو دعوت نہیں دی تھی یا عمران خان کی حکومت کے وزیر خارجہ نے ان کی تصویر اپنی ٹویٹ میں شئیر نہیں کی تھی اس لئے امریکہ ان سے ناراض ہے۔ امریکہ اس لئے عمران خان سے ناراض ہے کہ امریکہ اس بات کو مان رہا ہے کہ ہاں انھوں نے عمران حکومت سے اڈے مانگے تھے لیکن عمران خان نے ایبسلوٹلی ناٹ کہا تو اس بات پر امریکہ ناراض ہے اس لئے ان کے خلاف سازش کی اور ان کو دھمکی امیز خط بھیجا۔
عمران خان نے سرمائی اولمپک میں چائنا کا دورہ سیاسی مقاصد کے لئے کیا اور چائنا میں اعلی قیادت نے ان کی آؤ بھگت کی تھی اس لئے امریکی عمران خان سے ناراض ہیں۔ عمران خان نے رشیا کا دورہ انفرادی حیثیت میں کیا اور اس دوران عمران خان کا وزیر خارجہ اندرون ملک، اندرونی سندھ سے کراچی تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ امریکہ کے خلاف جلوس نکالے ہوئے تھے تو امریکی اس بات پر ناراض ہیں۔
عمران خان حکومت نے اپنے دور میں ڈالر کی قیمت نہیں بڑھائی، آئی ایم ایف کے کہنے کے مطابق لہذا امریکہ عمران خان سے ناراض ہے۔ عمران خان نے تیل سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں نہیں بڑھائیں اس لئے امریکہ عمران خان سے ناراض ہے۔ ٹرمپ کے جانے کے بعد جو بائیڈن ہر روز عمران خان کا حال احوال پوچھتے رہتے تھے لیکن حالیہ دنوں میں سیاسی مصروفیت کی وجہ سے عمران خان نے جو بائیڈن کو انتظار کروایا اور ان کی کال رسیو نہیں کی تو امریکہ ان سے ناراض ہے۔
عمران خان نے کرونا کے سلسلے میں امریکہ کی امداد قبول نہیں کی تو یہ بھی ایک جواز ہو سکتا ہے کہ امریکہ ان سے ناراض ہو۔ وزیر اعظم کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف چونکہ عمران خان کی ایما پر امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا تھا تو یہ بھی ایک جواز ہو سکتا ہے کہ امریکہ عمران خان کے خلاف سازش کر رہا ہوـ
عمران خان نے نیب اور شہزاد کبر کے زریعے اپوزیشن کے خلاف تمام الزامات ثابت کر دیئے ہیں تو اس پر بھی امریکہ عمران خان کے خلاف سازش کر سکتا ہے اور اپوزیشن کو عدم اعتماد پر اکسایا ہے۔ جب پرویز مشرف نے امریکہ کو اڈے دئے یا نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا تو بعد میں صدارتی ریفرنڈم میں عمران خان نے پرویز مشرف کا کھل کر ساتھ دیا تو ممکن ہے کہ اس پر امریکہ عمران خان سے ناراض ہو۔
عمران خان نے امریکہ کا نام لے کر، دھمکی کے بعد امریکہ کے سفیر کو ملک بدر کیا ہے تو ممکن ہے امریکہ عمران خان کا مزید مخالف ہو گیا ہو اور ایک اور خط ان کو روانہ کر دیں۔
لیکن ان تمام باتوں کی ایک بات کہ اپوزیشن بھی جب پلٹا کھاتی ہے تو وہ بھی پھر حد کرتی ہے جیسے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں خواجہ آصف کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ رشیا بھی سپر پاور ہے اور امریکہ کے علاوہ روس کے ساتھ دوستی بھی ہمارے آپشن کا حصہ ہو سکتا ہے۔
بہرحال عمران خان نے اپنی آخری تقریر میں جو وہ خود بھی اپنی آخری تقریر سمجھ کر کر رہے تھے عوام کے جذبات ابھارنے کی کوشش کی لیکن تحریک عدم اعتماد عوام کے جذبات سے نہیں عوامی نمائندوں کی اکثریت سے جیتی جا سکتی ہے جو کہ وہ ان کے ساتھ نہیں لہذا عدم اعتماد کے دن پارلیمنٹ کے سامنے لاکھوں لوگوں کی نہیں بلکہ ایک سو بہتر ارکان کی ضرورت ہو گی، شور شرابے کی نہیں ارکان کے ووٹ کی سیکرٹ رائے دہی کی ضرورت ہو گی جو عمران خان کھو چکا ہے لہذا ظاہر ہے جب بندہ ہر طرف سے ہر چیز ”لوز” کر رہا ہو تو پھر جذباتی باتیں یقینی ہو جاتی ہیں اور عمران خان اس یقین پر پورے اتر رہے ہیں۔