اپریل فولز ڈے: ”اپریل فول” کی اصطلاح سب سے پہلے کب استعمال ہوئی؟
حمیرا علیم
ہر سال دنیا بھر میں یکم اپریل کو اپریل فول منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز کیسے ہوا، اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ فرانس میں 1564 عیسوی میں نئے کیلنڈر کا آغاز ہوا اور جن لوگوں نے اسے نہیں مانا دوسروں نے ان کا مذاق اڑایا۔ کچھ کے مطابق اس کا تعلق ملحدانہ رسوم کے ساتھ ہے۔ یورپین اسے اپریل فِش کہتے ہیں کیونکہ سورج حوت سے اگلے گھر میں جاتا ہے۔ کچھ کفار اسے "آل فولز ڈے” کہتے ہیں کیونکہ اس دن وہ ہر شخص سے جھوٹ بولتے ہیں اور جو ان کا یقین کر لے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
یہ اصطلاح پہلی بار "ڈریک میگزین” میں 1698 عیسوی میں استعمال ہوئی۔ اس میگزین میں بیان کیا گیا تھا کہ کچھ لوگوں کو کالوں کی دھلائی دیکھنے کیلئے اپریل کی یکم کو ٹاور آف لندن میں مدعو کیا گیا۔ ایک اور میگزین "ایوننگ سٹار” نے مارچ 1746 عیسوی میں لکھا کہ یکم اپریل کو اسلینگٹن انگلینڈ میں گدھوں کی پریڈ ہو گی۔ بڑی تعداد میں لوگ وہاں پہنچے اور انتظار کرتے رہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ پریڈ تو شروع ہی نہیں ہو رہی تب انہیں احساس ہوا کہ وہ تو خود بیوقوف بن گئے ہیں۔
اس کا آغاز جیسے بھی ہوا ہو ایک بات تو طے ہے کہ اسلام میں جھوٹ کی ممانعت ہے اور اس دن کو منانے والے سوائے جھوٹ کے کچھ نہیں بولتے۔ کسی کے والدین کو ان کے بچے کے، یا کسی کو والدین کے یا کسی اور پیارے کے بارے میں کوئی بری خبر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ہارٹ اٹیک سے مر جاتے ہیں یا برین ہمیرج کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کسی کو اس کی بیوی کے افئیر کی جھوٹی خبر دے کر ان کی طلاق کروا دی جاتی ہے۔
اسلام میں جھوٹ کی ممانعت اتنی ہی سختی سے کی گئی ہے جتنی شراب، سود، زنا کی کی گئی ہے۔ سچ بولنے کو انکریج کیا گیا ہے ((حوصلہ افزائی کی گئی ہے)۔ اسلامی شریعت کے مطابق جھوٹ صرف کچھ صورتوں میں جائز ہے جن میں یہ چیزیں شامل ہیں۔
کسی کی جان بچانے کیلئے، دو لوگوں میں صلح کروانے کیلئے، میاں بیوی میں محبت پیدا کرنے کیلئے۔ سورہ النحل کی آیت 105 میں فرمان ربی ہے، "جھوٹ تو صرف وہ لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔”
ابن کثیر کہتے ہیں "اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ تو جھوٹے ہیں نہ ہی باتیں گھڑتے ہیں۔ ان کے دشمن بھی انہیں صادق اور امین کے طور پر جانتے تھے۔ جب ہرقل روم نے ابو سفیان سے آپ کی خصوصیات کے بارے میں پوچھا تو ایک سوال یہ بھی کیا تھا۔ "کیا کبھی تم لوگوں نے اس سے پہلے (دعوی نبوت سے پہلے) ان پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا؟” اس نے کہا "نہیں۔” ہرقل نے کہا تھا۔ "اگر انہوں نے لوگوں کے متعلق جھوٹ نہیں بولا تو وہ اللہ کے بارے میں بھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔” (تفسیر ابن کثیر 2/ 588)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ "نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا منافق کی چار نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ وعدہ کرتا ہے تو توڑ دیتا ہے۔ امانت میں خیانت کرتا ہے۔ جھگڑتا ہے تو گالیاں بکتا ہے۔ (بخاری 33۔مسلم 59) ابو عیسی ترمذی کہتے ہیں کہ علماء اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ جس میں ان میں سے ایک بھی خصلت ہو گی وہ منافق ہے۔ (شرح مسلم)
سب سے برا جھوٹ وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں بولا جائے اور یہ کفر ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: "کہہ دیجئے! بلاشبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔” (یونس 69)
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "مجھ پہ جھوٹ نہ گھڑو جو کوئی ایسا کرے گا اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہو گا۔” (بخاری 106)
ابو دہر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "اللہ تعالٰی روز قیامت تین لوگوں سے نہ تو بات کرے گا نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا۔” نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین بار یہ دہرایا۔ ابو دہر رضی اللہ عنہ نے پوچھا "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ کون ہیں؟ "آپ نے فرمایا” وہ جو اپنا تہمد ٹخنوں سے نیچے لٹکائے، دوسرا جو احسان جتائے، اور تیسرا وہ جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچے۔” (مسلم 106)
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "دو فریقین اس وقت تک سودا ختم کر سکتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں۔ اگر وہ ایماندار اور سچے ہوں تو اللہ ان کی تجارت میں برکت ڈال دیتا ہے۔ اور اگر وہ کچھ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو برکت اٹھ جاتی ہے۔” (بخاری 1973 مسلم 532)
سورہ المائدہ کی آیت 8 میں حکم ربی ہے: "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم اللہ کیلئے قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔”
اسلام تو خواب کے بارے میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "جو شخص ایسا خواب بیان کرتا ہے جو اس نے دیکھا نہ ہو اسے روز قیامت حکم دیا جائے گا کہ جو کے دو دانوں میں گرہ لگائے۔ لیکن وہ ایسا کر نہ سکے گا۔ جو کوئی لوگوں کی گفتگو چھپ کر سنے اور لوگ اسے برا جانیں روز قیامت اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ اور جو کوئی کوئی شبیہ بنائے اسے بطور سزا روز قیامت کہا جائے گا کہ وہ اس میں جان ڈالے اور وہ ایسا نہ کر سکے گا۔” (بخاری 6635)
بلاتحقیق ہر بات سن کر آگے پہنچانا بھی ممنوع ہے حتی کہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کی ممانعت ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "میں مذاق کرتا ہوں مگر سچ بولتا ہوں۔” (معجم الکبیر۔391)
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "جو کوئی مجھے یہ ضمانت دے کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولے گا میں اسے جنت کے وسط میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں۔”
معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کہتے سنا "افسوس ہے اس شخص پر جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے باتیں کرے اور جھوٹ بولے۔ افسوس ہے اس پہ افسوس ہے اس پہ۔” (داود 4990)
ایک دن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبداللہ ابن عامر رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹھے تھے۔ ان کی والدہ نے انہیں کہا "ادھر آو میں تمہیں کچھ دوں گی۔” نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا "تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟” والدہ نے کہا "میں اسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں۔” نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو یہ جھوٹ ہوتا۔” (داود 4991)
جھوٹ بولنے والے کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، سچائی بھلائی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کے ہاں سچا لکھا جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا برائی ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔” (بخاری 5743)
جھوٹے شخص کی گواہی بھی قبول نہیں کی جاتی اور اس کی سزا یہ ہے۔ سورہ الزمر میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: "آپ روز قیامت دیکھیں گے جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ان کے منہ کالے ہوں گے۔” عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے "ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک شخص مذاق میں بھی جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے۔” (مصنف ابن ابی شعبہ 236)
بحیثیت مسلمان ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی بھی صورت میں جھوٹ بولیں اس لئے یکم اپریل کو اس بے ہودہ مذاق کا حصہ نہ بنیں۔