”جو ویکسین لگوائے گا وہ دو سال کے اندر اندر مر جائے گا”
مصباح الدین اتمانی
سوشل میڈیا پر زیرگردش اس خبر میں کوئی حقیقت نہیں کہ کورونا ویکسین لگانے کے بعد دو سال کے اندر اندر انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
ایکس ایپ نامی واٹس ایپ گروپ میں ایک میسج شیئر کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ”بریکنگ نیوز: تمام ویکسیینڈڈ افراد دو سال کے اندر اندر مریں گے، نوبل انعام یافتہ فرانسیسی سائنس دان لک مونٹاگنیئر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس شخص کے بچنے کا کوئی امکان نہیں جو کسی بھی قسم کی ویکسین لگا چکا ہے۔”
اس من گھڑت خبر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پاکستان میں لوگوں کے ویکسینیشن سے متعلق خدشات اور ہچکچاہٹ میں اضافہ ہوا لیکن کیا واقعی کورونا ویکسین لگانے کے بعد دو سال کے اندر اندر انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے؟
حقیقت: خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نوبل انعام یافتہ سائنسدان لوک مونٹگینیئر سے متعلق سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے بیان کی کوئی حقیقت نہیں۔
پاکستانی وزارت صحت نے بھی کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے والے افراد کی دو سال میں موت کی خبروں کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی سائنسی تحقیق یہ ثابت نہیں کرتی کہ ویکسین لگوانے سے دو سال بعد موت واقع ہو سکتی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ویکسین لگوانے سے دو سال میں موت کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ تمام ویکسین تحقیق اور ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزر کر عام عوام تک پہنچتی ہیں اور کوئی سائنسی تحقیق یہ ثابت نہیں کرتی کہ ویکسین لگوانے سے دو سال بعد موت واقعہ ہو سکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسینیشن کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’ویکسین ہمارے مدافعتی نظام کے ٹارگٹ وائرس کو پہچاننے کے لیے تربیت دیتی ہیں اور ویکسینیشن کے بعد جسم اس وائرس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور یہ بالکل محفوظ ہے۔’
کورونا ویکسینیشن کے منفی اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں جو محض مخصوص بیماریوں کے شکار افراد تک محدود ہیں جبکہ اس کے فوائد اور مثبت اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جوں جوں پاکستان میں کورونا ویکسینیشن کی شرح بڑھتی گئی اس کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کی شرح کم ہوتی گئی۔
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو رپورٹ ہوا جبکہ 26 فروری 2021 یعنی ایک سال بعد اس وبا سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد پانچ لاکھ 77 ہزار سے بڑھ چکی تھی جب کہ اس مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 ہزار 800 سے زائد تھی۔
2 فروری 2021 کو ایک ڈاکٹر کو چینی کمپنی سائنو فارم سے ملنے والی پہلی کرونا ویکسین لگا کر پاکستان میں کورونا ویکسینیشن مہم کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔
26 فروری 2022 یعنی کورونا وبا کا پہلا کیس آنے کے ٹھیک دو سال بعد اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد 15 لاکھ 7 ہزار 656 تک پہنچ گئی جبکہ اموات کی مجموعی تعداد 30 ہزار ایک 153 تھی۔
پاکستان میں جب 13 دسمبر 2021 کو کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا پہلا کیس سامنے آیا تو یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ پہلی، دوسری، تیسری اور چوتھی لہر سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گی لیکن کورونا ویکسینیشن کی وجہ سے اسے پھیلنے کا موقع نہیں ملا اور پانچویں لہر کے دوران کورونا وائرس کے کیسز میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی اور پاکستان میں دو سال بعد یعنی 23 مارچ 2022 کو پہلی بار کورونا وائرس سے اموات کی شرح صفر رہی۔
اس حوالے سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ الحمد اللہ ملک میں 24 گھنٹے کے دوران کورونا سے کوئی اموات ریکارڈ نہیں ہوئیں، ایسا 2 سال میں پہلی بار ہوا ہے۔
ڈاکٹر شمس وزیر میڈیکل سپیشلسٹ ہیں اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں کورونا وباء کے دوران خدمات انجام دیتے رہے جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے، انہوں نے کورونا وائرس پر بھی تحقیق کی ہے، وہ کورونا وائرس کے کیسز اور اموات کی شرح میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ویکسینیشن کو قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر شمس وزیر نے کورونا ویکسین کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جیسے پولیو اور ہیپاٹائٹس بی کی روک تھام کیلئے ویکسین کا استعمال ہوتا ہے اسی طرح کورونا وائرس سے نجات کیلئے بھی ویکسین ایجاد کی گئی ہے، ”کورونا ویکسین لگانے سے قوت مدافعت مضبوط ہو جاتی ہے اور جسم میں اینٹی باڈیز آ جاتی ہیں، ویکسینیشن کے بعد اگر کوئی کورونا وائرس کا شکار بھی ہو جائے تو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔”
ڈاکٹر شمس وزیر ے مطابق کورونا وباء کی پہلی چار لہروں کے مقابلے میں پانچویں لہر میں جانی نقصان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے پانچویں لہر آنے سے پہلے ویکسین لگوائی تھی، بعض لوگ کہتے ہیں کہ کورونا ویکسین سے لوگ مر جاتے ہیں یہ محض افواہ ہے، جو ویکسین مارکیٹ میں آتی ہیں پہلے ان پر ریسرچ ہوتی ہے، فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی ان کی منظوری دیتی ہے۔
پشاور کے رہائشی محمد اقبال نے بھی سفری پابندیوں کے خوف سے مئی 2021 میں ویکسین لگوائی تھی، انہوں نے بتایا کہ ویکسینیشن سے پہلے میں خوفزدہ تھا کہ ایسا نہ ہو میں بھی کورونا ویکسینیشن کے منفی اثرات کا شکار ہو جاؤں، ”میں نے مئی 2021 میں ویکسین لگائی ہے لیکن ابھی تک کوئی منفی اثر نہیں ہوا ہے۔”
محمد اقبال نے بتایا کہ پابندیوں سے مجبور ہو کر جب ویکسین لگا رہا تھا تو اس وقت یہ افواہیں زیرگردش تھیں کہ جو ویکسین لگوائے گا وہ دو سال کے اندر اندر مر جائے گا، اس وجہ سے باقی لوگوں کی طرح میں بھی تشویش میں مبتلا تھا لیکن پابندیوں کی وجہ سے میں نے مجبور ہو کر ویکسین لگوائی، ”تقریباً ایک سال ہو گیا ویکسینیشن سے میں بالکل بھی متاثر نہیں ہوا ہوں اور نہ ہی کوئی منفی اثر پڑا ہے، میرے دوستوں میرے پڑوسیوں میں ہزاروں لوگوں کی ویکسینیشن ہو چکی ہے لیکن اس سے کوئی بھی متاثر نہیں ہوا، اب مجھے یقین ہے کہ اس کے منفی اثرات نہیں ہیں اور اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری حفاظت کیلئے ہے اور میں ویکسینیشن پر بہت مطمئن اور خوش ہوں۔”
خیال رہے کہ 2 فروری 2021 سے اب تک پاکستان میں 10 کروڑ 18 لاکھ 81 ہزار 176 افراد کو کورونا ویکسین کی مکمل ڈورز لگوائی جا چکی ہیں جبکہ 12 کروڑ 80 لاکھ 74 ہزار 138 افراد کو جزوی طور پر کورونا ویکسین لگائے جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ 48 لاکھ 69 ہزار 245 افراد کو بوسٹر ڈور لگائی جا چکی ہیں جس کی بدولت پاکستان میں کورونا وبا کی پانچویں لہر سے اموات کی شرح میں واضح کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔