کورونا ویکسین سے خواتین کی صحت متاثر ہوتی ہے، اس بات میں کتنی صداقت ہے؟
اسماء گل
کورونا وباء سے بچاؤ میں مددگار ویکسین صحت کیلئے کتنی محفوظ ہے؟ اس حوالے سے ہمارے ہاں بہت سی قیاس آرائیاں اور افواہیں پائی جاتی ہیں اور خصوصاً خواتین میں یہ رجحان زیادہ ہے کہ عالمی وباء کورونا کے خلاف ویکسین لگانے سے ان کی صحت پر اچھا اثر نہیں پڑا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی بات کہاں تک درست ہے اور یہ ویکسین کس حد تک خواتین کی صحت پر منفی یا مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں کورونا ویکسینشن موبائل ٹیم کی ایک ورکر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں جب دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کورونا ویکسینیشن کیلئے گھروں میں بیٹھی خواتین کو راضی کرنے اور انہیں ویکسین لگوانے کی ذمہ داری دی گئی تو یہ ان کے لئے بہت مشکل تھا، وہ اس لئے کہ پولیو اور حفاظتی ٹیکوں کے حوالے سے کافی حد تک مطمئن خواتین بھی کورونا ویکسین لگانے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک گھر میں جب وہ خاتون کی ویکسینشن کے بعد اگلے روز وہاں پر دوبارہ گئے تو انہیں شکایت موصول ہوئی کہ کورونا ویکسینشن کے بعد ایک خاتون پر پھوڑے نکل آئیں ہیں جس کو فوری طور پر اپنے متعلقہ بی ایچ یو میں رپورٹ کیا گیا اور وہاں سے ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم نے خاتون کا معائنہ کیا تو تشخیص ہونے پر پتہ چلا کہ خاتون الرجی میں مبتلا ہے جس کے بعد انہیں بتایا گیا کہ کورونا ویکسنیشن کی وجہ سے آپ کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے کئی اور واقعات بھی دوران ویکسنشن سامنے آئے، ایک اور خاتون نے ویکسین لگانے کے بعد شکایت کی کہ ان کے بازوؤں میں تکلیف شروع ہو چکی ہے تاہم چند دن گزرنے کے بعد وہ ٹھیک اور تندرست تھیں، ایک اور خاتون نے بتایا کہ کورونا ویکسین کی خوارک لینے کے بعد ان کا حمل کا ضائع ہوا ہے، ایک خاتون نے کورونا ویکسین کو ایک سازش قرار دیتے اور اس کو لگانے سے آئندہ نسل میں جنسی خواہشات بڑھ جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معاشرے میں جنسی روابط زیادہ ہو جائیں گے۔
دوسری جانب ایمرجنسی آوٹ بریک رسپانس اینڈ کمیونٹی انگیجمنٹ کے ماہر ڈاکٹر پروفیسر افتخار خان کا کہنا تھا کہ 2021 کے آغاز میں جب کورونا ویکسین کی خوارک کا عمل شروع ہوا تو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ویکسین کے حوالے سے طرح طرح کے بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈا شروع ہو گئے، مختلف قسم کی افواہیں پھیلنے لگیں لیکن حکومت کی جانب سے قائم کردہ نیشنل کمانڈ اینڈ اپریشن سنٹر (این سی او سی) نے محکمہ صحت کے تعاون سے بھرپور اور بروقت اقدامات کئے جس کے ذریعے تمام افواہوں اور منفی سوچ کو زائل کر دیا گیا۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ڈاکٹر افتخار نے یہ بھی بتایا کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگوانے کے لئے نشتر ہال، خیبر میڈیکل یونیورسٹی، حیات آباد، جلال بابا آڈیٹوریم ابیٹ آباد، ودودیہ ہال سوات، ڈسٹرکٹ ہیلتھ اسپتال، رورل ہیلتھ سنٹرز کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع میں مخصوص موبائل وین اور لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت خیبر پختونخوا میں تقریباً ایک ہزار سنٹر قائم کیے گئے ہیں جس کا مقصد کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے ہر فرد کو بروقت ویکسن لگوانا تھا۔
ڈاکٹر پروفیسر افتخار خان نے کوویڈ ویکسینیشن کے عمل کے دوران معاشرے میں موجود منفی تاثرات کو افواہیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ بروقت اور فوری طور پر لوگوں کو ویکسین لگوانے کے لئے معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے سے شروع میں سست روی کا شکار ویکسینیشن کے عمل میں تیزی آئی اور لوگوں کو سمجھا دیا گیا کہ کوویڈ ویکسین کے کسی قسم کی منفی اثرات صحت پر نہیں پڑتے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات فائزر ویکسین کے دوران کچھ وقت کے لئے بخار کی شکایات موصول ہوتی رہیں لیکن یہ معمول کی بات تھی، اس کے علاوہ باقی سب افواہیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال جب ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا تو منفی پروپیگنڈوں کے خاتمے اور لوگوں کو اس بارے اعتماد میں لینے کے لئے علماء کرام کو اعتماد میں لیا گیا کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے علاوہ محکمہ تعلیم کی معاونت سے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے ساتھ ورچوول میٹنگز منعقد کی گئیں جس کے بعد انہوں نے تعلیمی اداروں کے طلباء میں آگاہی پھیلائی کہ کوویڈ ویکسینیشن کے متعلق غلط تاثر کی روک تھام کے لئے اپنا کردار ادا کریں، لیڈی ہیلتھ ورکز، ای پی آئی ملازمین اور ڈاکٹروں کے ساتھ بھی آگاہی سیشن منعقد کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوردراز علاقوں کے لوگوں میں ویکسینیشن کی افادیت کے بارے میں لاؤڈ سیپکرز پر اعلانات کیے گئے۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر افتخار خان نے بتایا کہ ویکسین لگنے سے بازو میں تکلیف کو کسی خطرے کی علامت سے جوڑنا قعطاً درست نہیں بلکہ کسی بھی بیماری کے وقت بازوؤں پر انجیکشن لگانے سے کچھ وقت کے لئے درد ضرور محسوس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پہلی بار ویکسینیشن کا عمل شروع ہوا تو ویکسین کی درآمد کم مقدار میں تھی اور ویکسین کے حوالے سے پروپگنڈے بھی اپنے زور پر تھے ایسے میں قلیل مقدار میں درآمدات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آغاز ہم نے محکمہ صحت اور دیگر محکموں کے افسروں اور ملازمین سے کیا تاکہ معاشرے میں کورونا ویکسین کے حوالے سے مثبت تاثر پھیلے یہی وجہ ہے کہ جب خیبر پختونخوا حکومت کو ویکسین کی بڑی کھیپ ملی تو معاشرے کے دیگر افراد کو ویکسین لگانے میں یہ تاثر کافی حد تک ختم ہو گیا تھا، خواتین کی جانب سے ویکسین نہ لگوانے کے لئے ہم نے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ای پی آئی ملازمین کی مدد لے کر گھروں میں موجود خواتین کو بتایا کہ ویکسین لگوانا ان کے فائدے میں ہے اور آغاز میں خواتین کی طرف سے ان کے سامنے متعلقہ بی ایچ یوز اور آر ایچ یوز کے ملازمین کو کوویڈ ویکسین دی گئی اور جب انہیں معلوم ہوا کہ اس ویکسین کے کوئی مضر اثرات نہیں تو پھر اس کے بعد وہ ویکسین لگوانے کے لئے آمادہ ہو گئیں۔