”ویکسین کے بعد آپ کی داڑھی نکل آئی یا آپ مگرمچھ بن گئے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے”
شاہ زیب آفریدی
برازیل کے صدر بولسنارو سے لے کر ایک عام آدمی تک کورونا ویکسین کے حوالے سے مختلف افواہیں زیر گردش ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کورونا ویکسین لگوانے کے بعد عورتوں کے چہروں پر بال اگ آتے ہیں، اس میں کتنی حقیقت ہے، اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
کورونا ویکسین عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور کردہ ہے, اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ویکسین سے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ کورونا ویکسین کو متعارف ہوئے سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا کہ کسی نے ویکسین لگوائی ہو اور اس کو کوئی نقصان ہوا ہو۔ اس کے سائیڈ ایفیکٹ بہت کم رپورٹ ہوئے ہیں جیسا کہ بخار، جسم میں درد وغیرہ۔ لیکن یہ اس وقت بھی ہوتا ہے جب ہم عام طور کو کوئی انجیکشن لگائیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ڈاکٹر زبیر کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا کہ کسی شخص نے ویکسین لگوائی ہو اور اس کو کوئی تکلیف ہوئی ہو، خیبر پختونخوا میں بلکہ پورے پاکستان میں بھی ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہوا ہے۔ یہاں ایسی کوئی بھی فیمل نہیں آئی ہے جس نے کہ ویکسین لگوائی ہو اور اس کے چہرے پر بال اگے ہوں یا اس کے ہارمونز میں فرق آیا ہو، یہ بس آفواہیں ہیں کہ جو لوگ ویکسین لگائیں ان کے ہارمونز میں فرق آتا ہے یا چہرے پر بال نکل آتے ہیں، اگر کسی کو یہ مسئلہ ہو تو فوری تور پر اپنے قریبی ڈاکٹر کے پاس جا کر اس کے ساتھ مشورہ کرے۔
ان کا مذید کہنا تھا کہ ویکسین کے علاوہ جو عام کاسمیٹکس کا سامان ہے اس میں سٹیراڈز استعمال ہوتے ہیں، جس میں گلوبی ویڈ، ڈرموویڈ، بیڈنویڈ، پورویٹ شامل ہیں، جو چہرے پر استعمال ہوتے ہیں، یہ تباہی ہے چہرے کے لئے، یہ عورتیں صرف فرمولا کے طور پر استعمال کرتی ہیں لیکن اس کی وجہ سے چہرے پر بال نکل اتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ چہرے پر داغ بھی آتے ہیں اور ساتھ بال بھی یہ سب عام دکانوں سے جو کریم استعمال کرتے ہیں یہ چہرے کے لئے نقصان دہ ہیں، اب تک ہم نے 1 لاکھ 60 ہزار لوگوں کو ویکسین لگائی ہے اب تک مریضوں نے کوئی شکایات نہیں کی ہے ویکسین بالکل بھی سیف (محفوظ) ہے۔
پشاور شہر کی زینت خاتون نے خود ویکسین لگوائی ہے لیکن بچی کو لگوانے سے گریزاں ہیں، وجہ پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ اپنی بچی کو خود بانجھ بناؤں، مختلف قسم کی بیماریوں میں اپنے ہاتھوں سے مبتلا کر دوں؟
زینت کی بیٹی نہم جماعت کی طالبہ ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری ہدایات کے مطابق اب ہر طالب علم کو بھی سکول میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جارہی ہے۔ زینت نے بتایا کہ وہ بالکل بھی اپنی بچی کو ویکسین لگوانے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ کورونا ویکسین کے بہت سارے سائیڈ ایفیکٹس ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے پاس تو کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے لیکن لوگوں سے سنا ہے کہ یہ غیرملکی ایجنڈا ہے تاکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں اور آنے والی نسل کو کسی نا کسی طریقے سے خراب کریں۔ اس کورونا ویکسین سے نوجوان نسل بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے گی، لڑکیوں کی ماہواری بھی بے قاعدہ ہو جاتی ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق 17 دسمبر 2021 تک پاکستان میں 6 کروڑ تک جبکہ خیبر پختونخوا میں تقریباً 6 لاکھ سے کم افراد نے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوائی ہے۔
زینت کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے ڈاکٹر زبیر بھٹی جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں کورونا ویکسینیشن سنٹر کے انچارج اور ترجمان ہیں، انہوں نے بتایا کہ تمام والدین اپنے بچوں کو ضرور ویکسین لگوائیں، بانجھ پن کی افواہیں غلط ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے 18 سال سے 15 اور اب 12 سال تک بچوں کو ویکسین لگانے کی ہدایت کی گئی ہے اور سائینوفارم لگائی جا رہی ہیں، ”جہاں تک خواتین کی ماہواری کی بات ہے تو اس کے بے قاعدہ ہونے کی کئی اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں، اس قسم کی شکایت کورونا ویکسین کی وجہ سے ابھی تک سامنے نہیں آئیں۔”
چارسدہ کی فاطمہ بھی کورونا ویکسین سے انکاری ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ حاملہ ہیں اگر ویکسین لگوائیں گی تو ان کا حمل ضائع ہو جائے گا اور پھر دوبارہ ماں بننے کی اہل نہیں رہیں گی اس لیے وہ ویکسین لگوانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر زبیر نے بتایا کہ سنی سنائی باتوں پر کان نا دھرے جائیں، حاملہ خواتین کے لیے بھی کورونا ویکسین محفوظ ہے، ماں اور بچے کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حاملہ خاتون کو کورونا لاحق ہو جائے تو ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہےاس لئے اپنے لئے اور اپنے بچے کے لیے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین ضرور لگوائیں، وہ مائیں جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتیں وہ بھی ویکسین لگوا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین سے شیرخوار بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
پشاور کی خاتون بس پری بچوں کی ویکسینیشن کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا اس کے کافی نقصانات ہیں، ”خود تو اس لیے ویکسین لگوائی ہے کہ میں اب تو عمررسیدہ ہوں، شادی ہو گئی ہے اور بچے بھی ہیں لیکن اپنے بچوں کو کبھی بھی ویکسینیشن کی اجازت نہیں دوں گی۔
اپنے انکار کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ دو سال کے بعد مرنا، بانجھ پن اور لڑکیوں کے مونچھیں داڑھی بھی نکلنا ویکسین لکوانے کے اثرات میں شامل ہیں۔
اس حوالے سے ڈبلیو ایچ او کے اہلکار نے بتایا کہ دنیا بھر میں جو بھی ویکسین یا میڈیسن ہیں سب کا کچھ نا کچھ معمولی سائیڈ ایفکٹ ہوتا ہے، اگر کوئی ڈسپرین بھی بغیر ڈاکٹر کے نسخے یا ہدایت کے استعمال کرے یا بے جا استعمال کرے تو نقصان دہ ہے، اسی طرح کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کا بھی کوئی نا کوئی سائیڈ ایفیکٹ ضرور ہو گا، جس میں بخار، سر درد یا معمولی سوجن شامل ہیں لیکن داڑھی مونچھ، دم، بانجھ پن،حمل ضائع ہونا یا دو سال کے بعد مرنا طب کی سمجھ سے باہر ہے، یہ صرف افواہیں ہیں اور ابھی تک کوئی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی جس سے ان تمام شکوک یا افواہوں کی تصدیق ہو سکے۔
عالمی ادارہ صحت سے اتفاق کرتے ہوئے پروفیسر ظفر اقبال نے بھی بتایا کہ دو سالوں میں نا کوئی ایسی ریسرچ سامنے آئی ہے نا کوئی ایسا کیس سامنے آیا جس سے ثابت ہو کہ کورونا ویکسین کی وجہ سے کوئی بانجھ ہوا ہو یا کسی کا حمل ضائع ہوا ہو، ہر بیماری کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ کورونا ویکسین کے بعد بھی بہت سے ایسے جوڑے ہیں جن کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔ ویکسین سے پہلے بھی ایسی خواتین ہیں جن کے حمل ضائع ہوتے رہے ہیں یا وہ بچے کی پیدائش سے محروم ہیں۔
ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہا کہ بعض اینٹی ویکسین لوگ مختلف قسم کی افواہیں پھیلا رہے ہیں، ان کا مقصد لوگوں میں غلط فہمی پھیلانا ہے اور کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہر فیلڈ کا اپنا اپنا ماہر ہوتا ہے کسی بھی ویکسین یا دوائی کے فوائد یا نقصانات میڈیکل فیلڈ درست بتا سکتا ہے نا کہ کوئی بھی غلط افواہ پر یقین کر کے خود اور آنے والی نسل کو صحت کی سہولت سے محروم کرے۔
یاد رہے کہ برازیل کے صدر جیئر بولسنارو نے کورونا وائرس ویکسین کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہاں تک کہا تھا کہ فائزر ویکسین لوگوں کو مگرمچھ یا عورتوں کو باریش بنا سکتی ہے۔
انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ لیڈر گزشتہ سال ویکسین کی آمد کے ساتھ ہی اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں، وہ اسے (کورونا وائرس کو) ایک معمولی زکام قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ ویکسینیشن کی عوامی مہم کا اجرا کر رہے تھے، انہوں نے واضح کیا کہ وہ ویکسین نہیں لگائیں گے۔
اپنے خطاب میں بولسنارو نے کہا: ”فائزر کے معاہدے میں واضح لکھا ہے ‘ہم کسی بھی سائیڈ ایفیکٹ کے ذمہ دار نہیں ہوں گے، آپ اگر مگرمچھ بن گئے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے۔”
برازیل میں عرصہ سے یہ ویکسین زیرآزمائش ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں پہلے سے ہی اسے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
”آپ اگر سپرہیومن بن گئے، اگر کسی عورت کی داڑھی نکل آئی، اگر کسی مرد کی آواز زنانہ جیسی ہو گئی، تو ان کا (کمپنی والوں کا) کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بولسنارو نے کہا۔
حفاظتی ٹیکوں کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مفت ہوں گی لیکن لازمی نہیں۔
لیکن برازیل کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ ویکسین لازمی ہو گی اگرچہ لوگوں کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکام ویکسین نا لگوانے والے شہریوں کو جرمانہ کریں گے، بعض مقامات پر ان کو جانے نہیں دیں گے لیکن وہ یہ ویکسین لگوانے کے لئے کسی کو مجبور نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ برازیل کی 212 ملین آبادی میں اکہتر لاکھ سے زائد کیسز ریکارڈ ہوئے، تقریباً ایک لاکھ پچاسی ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔
بولسنارو نے کہا کہ برازیل کی ریگولیٹری ایجنسی سے منظوری (سند) کے بعد یہ ہر اس شخص کے لئے دستیاب ہو گی جس کو یہ درکار ہو گی، ”لیکن میں، میں ویکسین نہیں لگواؤں گا، بعض لوگوں کے خیال میں، میں ایک بری مثال قائم کر رہا ہوں، لیکن ان نامردوں، بے وقوفوں کو جو ایسا کہہ رہے ہیں، میں یہی کہوں گا کہ مجھے پہلے ہی وائرس لاحق ہوا ہے، مجھ میں اینٹی باڈیز ہیں، تو میں کیوں ویکسین لگواؤں؟”
یہ بھی واضح رہے کہ دوبارہ انفیکشن کی تعداد (کسی کو دوبارہ کورونا وائرس لاحق ہونا) بہت کم ہے اگرچہ اس بارے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا کسی کو دوبارہ بھی کورونا لاحق ہو سکتا ہے اور یا یہ کہ یہ مدافعت کتنی دیر تک قائم رہے گی۔
بولسنارو کو جولائی 2020 میں کورونا ہوا تھا اور تین ہفتوں میں وہ صحتیاب ہوئے تھے۔ دوسری جانب برازیل میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب یومیہ حساب سے ایک ہزار لوگ اس مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے تھے۔ دوسری جانب ملک میں جاری انسداد کورونا کی مہم کو بھی کڑی تنقید کا نشاننہ بنایا جاتا رہا ہے۔