ملکِ عزیز کے سیاسی حالات: تاریخ کو ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے
رانی عندلیب
ملکِ عزیز پاکستان میں جاری حالات کو اگر دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے جیسے تاریخ کو ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مہنگائی کی ذمہ دار حکومت ہے اور سرکار گرانے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔
زبیدہ جو کہ ایک سرکاری ملازمہ ہے، وہ پی ٹی آئی کی بہت بڑی سپورٹر تھیں لیکن جب پی ٹی آئی حکومت بنی اور ملک کے حالات روز بروز بگڑتے گئے، مہنگائی نے آسمان سر پر اٹھا لیا تو وہ اپنے فیصلے پر پشیمان اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف ہو گئیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی بات چیت کے دوران زبیدہ کا کا کہنا تھا کہ حالات اور واقعات کو دیکھ کر وہ بھی اپوزیشن کی طرح حکومت ختم ہونے کی دعا کرنے لگیں لیکن دوسری جانب اب چونکہ بجٹ نزدیک ہے اور حکومت کے خاتمے کی باتیں ہو رہی ہیں تو وہ چاہتی ہیں کہ حکومت ختم نا ہو کیونکہ اگر عبوری حکومت بنتی ہے تو قانون کے مطابق اس کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے تاکہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں، جبکہ ایک سرکاری ملازم پورا سال یہی انتظار کرتا ہے کہ سالانہ بجٹ میں اس کی تنخواہ بڑھ جائے گی، اسی لیے وہ شش و پنج میں ہیں۔
دوسری جانب اے این پی کے صوبائی سیکرٹری جنرل اور موجودہ پختون خوا اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے خلاف جو اتحاد ہے وہ بڑا مضبوط ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کی جماعت تنہا رہ چکی ہے، اتحاد کامیاب ہے اور مزید کامیابی کے امکانات ہیں۔
سردار حسین بابک کے مطابق سپیکر صرف ملک کے لیے ہی کام کرتا ہے نہ کہ عام لوگوں کے لیے، سپیکر نہ کسی کی طرف داری کرتا ہے اور نہ ہی کسی سے ڈرتا ہے لیکن آج سپیکر حکومت کی نمائندگی کر رہا ہے ورنہ سپیکر کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہوتے کہ وہ اس بات پر تبصرہ کرے یا دعوی کرے کہ اپوزیشن کے پاس کتنے ممبر ہیں اور حکومت کے پاس کتنے ممبر ہیں لیکن اب اسپیکر واضح الفاظ میں میڈیا کو بتا رہا ہے کہ حکومت کے پاس اتنے ممبر ہیں جبکہ یہ تمام اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں اور وزیراعظم ہی بتاتا ہے یا حکومت کے ممبران کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے اور وہی بتاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپیکر عہدے کے لحاظ سے نہ حکومت کا بندہ ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سپیکر بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور کامیابی کے واضح نشانات یہ ہیں کہ اگر دیکھیں تو وزیراعظم بھی اپوزیشن کی طرف چلا گیا ہے، وزیراعظم نے جلسے شروع کیے، اب آپ لوگ بھی سوچیں کہ جلسے تو پورا ملک وزیراعظم اور حکومت کے خلاف کر رہا ہے لیکن اب عمران خان خود بھی جلسے کر رہا ہے تو اس کا کیا مطلب؟ حکومت کو جلسوں کی بجائے حکومت کے اقتصادی بحران پر توجہ دینا چاہیے اور سیاسی افراتفری پر کیونکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کے ان چیزوں پر توجہ دے، اس کے علاوہ خارجی تعلقات پر توجہ دے لیکن اس وقت وزیراعظم بھی، ایسا لگ رہا ہے، جیسے اپوزیشن میں ہیں یہ بھی ایک الگ سوال ہے کہ وزیراعظم ایسا کیوں کر رہا ہے اور کس کے خلاف جلسے کر رہا ہے۔ اگر اتحاد کی بات کی جائے تو تو بہت ہی زیادہ کامیاب اور مضبوط ہے، یہ بھی ہے کہ آج کل جو مہنگائی ہے تو اس کے لیے اپوزیشن اقدام اٹھائے گی بلکہ انتہائی مہذب، جمہوری اور پارلیمانی اقدامات اٹھائے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام مہنگائی سے تنگ ہیں، کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں اور اس طرح اگر صحافت کو دیکھا جائے تو اس پر کتنی پابندیاں ہیں، عدلیہ کو دیکھا جائے پارلیمنٹ کو دیکھا جائے تو سب کا کتنا مذاق بنا ہے، اسمبلی کو ٹوٹنا نہیں چاہیے، اس کا سب سے زیادہ نقصان اور سب سے برا اثر عام عوام پر پڑے گا اور معیشت پر بھی پڑے گا کیوں کہ جب دوبارہ الیکشن ہوں گے یا اس سے پہلے جمہوری حکومت آئے گی تو اس پر جتنا خرچہ ہو گا اس کا حساب عام عوام چکائیں گے، اس کے برعکس جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ایک سائیڈ پر ہیں تو ان کا خیال ہے کہ اگر ہماری حکومت آ گئی تو ہم عوام کو فائدہ دیں گے، مہنگائی میں کمی آ جائے گی، اس کے علاوہ بین الاقوامی تجارت بند ہے، اس کو فروغ دیں گے، پنجاب کے راستے سے جو ہندوستان کے ساتھ بائی روڈ تجارت ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سڑک کے راستے سے افغانستان کے ساتھ، اس کے علاوہ وسطی ایشیا کے ساتھ پاکستان تجارت کر رہا ہے اگر یہ تمام راستے مستقل کھل جائیں تو ہمارا ملک بھی ترقی کرے گا اور لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع مل جائیں گے، ملک میں کاروبار زیادہ ہو گا تو دہشتگردی میں بھی کمی آئے گی، اقتصادی بحران سے ملک میں دہشت گردی بڑھے گی، ملک میں صورتحال تب ہی ٹھیک ہو گی جب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا، جب چاروں صوبوں کو اپنے آئینی حقوق ملیں گے تو وہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے، بین الاقوامی ممالک کے ساتھ تجارت پر اگر کوئی پابندی نہ ہو گی تب ہی ملک ترقی کرے گا۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد شاہد نے بتایا کہ اسمبلی ٹوٹنے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جتنی بھی معاشی پالیسیاں ہیں ان میں بریک آ جائے گی، جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسمبلی ٹوٹ جائے گی اور اس سے سارے مسائل حل ہو جائیں گے تو یہ ان کی غلط سوچ ہے، سیاست اور اقتصادیات کے درمیان گہرا تعلق ہے، اگر پالیسی وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی ہے تو اس وجہ سے سرمایہ کار صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے، غیریقینی صورتحال ہو تو پھر سرمایہ کار اپنا پیسہ نہیں لگاتا، اور جب ملک میں سرمایہ کاری نہ ہو تو ملک اپنے مسائل حل نہیں کر سکتا، ایسی صورت حال میں ہمارے اپنے سرمایہ کار اپنا سرمایہ دوسرے ممالک لے جاتے ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ ملک کی صورتحال ٹھیک ہو جائے گی تو یہ غلط ہے، گھی، آٹا، دال تین چار مہینوں میں آسمان کو پہنچ گئے۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی رہنماؤں کے نعرے معاشیات کے ارد گرد گھومتے ہیں، ہر سیاستدان اپنے جلسوں میں خارجہ پالیسی کی بات نہیں کرتا ان میں صرف مہنگائی کے حوالے سے یا غربت کے خاتمے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کو یاد بھی نہیں رہتا کہ انہوں نے کیا وعدے کئے ہیں، پھر ہر طرح کی سہولیات ان کے دوست احباب کے لئے جبکہ غریب عوام یاد بھی نہیں رہتے۔