شہرت ایک نشہ، اور اس کا عادی لاعلاج ہوتا ہے!
ناہید جہانگیر
کہا جاتا ہے کہ شہرت نشہ ہے۔ شہرت کے نشئیوں کے دو طبقے ہوتے ہیں: ایک وہ جو شہرت پر شکر کرتے ہیں جبکہ دوسرا وہ جو بلندی پر پہنچ کر بہت سی قیمتی چیزوں کے ساتھ ساتھ پیچھے تمام مخلص رشتوں کو بھی نا صرف چھوڑ دیتے ہیں بلکہ موڑ کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
آج کل تو سوشل میڈیا پر بعض لوگ شہرت کے نشے میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ وہی بات کہ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نا ہو گا۔۔ لوگ بھی نام کمانا چاہتے ہیں چاہے اچھا ہو یا برا۔
ماہرین ذہنی امراض کہتے ہیں کہ شہرت کا نشہ ایک خطرناک بیماری ہے، منشیات سے بھی زیادہ کیونکہ منشیات کا عادی علاج سے ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن شہرت کا نشئی نہیں۔
ان کے مطابق شہرت سے عشق میں مبتلا بندہ اور آگے جانے کے لالچ میں بلندی پر بھی ڈپریشن کا شکار رہتا ہے کہ کہیں پیچھے نا رہ جائے یا کوئی اور اس کی جگہ نا لے لے لیکن اگر شہرت کی ایک سیڑھی سے بھی نیچے آتا ہے یا ناکام ہوتا ہے تو وہی ڈپریشن اس کی موت کا بھی سبب بنتا ہے۔ اور جب شہرت چِھن جاتی ہے تو نشے میں اتنا آگے جا چکا ہوتا ہے کہ پیچھے چھوڑنے والوں کے پاس آنا ہی ناممکن ہو جاتا ہے۔
شہرت کا جنون شوبز سے وابستہ لوگوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کی مثال آج کل ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز ہیں جو بلندی اور شہرت حاصل کرنے کے لئے اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ بعض بزرگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں تو ناچ گانا مخصوص طبقے کا کام تھا لیکن اب تو ہر گھر میں یہ لوگ نظر آ رہے ہیں۔
عزت، دولت اور شہرت ایسی بیماریاں ہیں جو ہر شخص پر حملہ آور ہوتی ہیں مگر اس کے اثرات عموماً دو طرح کے ظاہر ہوتے ہیں۔ اول دولت، عزت اور شہرت کو اللہ کریم کی کرم نوازی اور عطا سمجھ کر انسان عاجزی اور انکساری کا منبع بن کر خلقِ اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے۔
دوم اللہ کی عطا کو اپنی ذات کی بڑھائی مان کر عزت، دولت اور شہرت کو صرف اپنا حق سمجھنا شروع کر دینا اور اس بنا پہ اپنی عادات اپنے اطوار پہ فخر و غرور کرنا، ایسے افراد جلد عروج پاتے ہیں اور اناً فاناً برباد ہو جاتے ہیں۔
دراصل شہرت کے اصل معنی سے ناواقفیت کی وجہ سے آج کل سلیبریٹی بننے کی جو دوڑ لگی ہے اس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے۔ ایسے ہزاروں افراد ہیں جو محض مشہور ہونے کے لیے اپنی ذات کی تضحیک، اپنی جان داؤ پہ لگانا اور اپنے جسم کی نمائش تک سے دریغ نہیں کرتے۔
دولت کے حصول کے لیے سوشل میڈیا پہ بطورِ خاص یوٹیوب پہ ایسے ایسے عنوان اور ٹائٹل دے کر ویڈیو لگائی جاتی ہے کہ ویوز زیادہ ہوں، ویوز، فالورز اور لائکس کی دوڑ میں کچھ بھی پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز گندگی اور فیک نیوز کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ چاہنے سے زیادہ چاہے جانے کا احساس خوبصورت ہوتا ہے لیکن یہ احساس اگر محسوس حد کو پار کر جائے تو اس چاہے جانے کے احساس جیسی بیماری کوئی نہیں۔ ہر وقت ہر کسی سے چاہے جانے کی امید اور توقع انسان کو مصنوعی پن اور اخلاق باختگی کی جانب مائل کر دیتی ہے۔
دیگر نشہ آور اشیاء کی مانند شہرت کا نشہ جائز و ناجائز حلال و حرام کی تمیز بھلا دیتا ہے۔ اس نشے کا عادی لاعلاج ہو جاتا ہے۔ اخلاقی برائیوں کو وہ شہرت کے حصول کا ذریعہ مانتے ہوئے ان کو اپنا ہتھیار تسلیم کر لیتا ہے مگر یہ خمار تب اترتا ہے جب حُسن اور جوانی ڈھلنے لگتی ہے۔
کبھی کبھار تو شہرت کے چھن جانے پہ ہی یہ بیماری جان لیوا بن جاتی ہے۔ ہزار دلائل کے بعد دنیا کی ایک اٹل حقیقت بدل نہیں سکتی کہ شہرت کو زوال ہے۔ فلاح وہی پائے گا جو اس کو نشے کی طرح نہیں بلکہ عطا مان کر استعمال کرے گا۔ اور اگر شہرت پر اللہ کا شکر گزار نا ہو تو یہ کبھی پاس قیام نہیں کرے گی۔