”ملاگوری کا ماربل ہی اصلی، باقیوں کو خوبصورت و شفاف پتھروں میں شمار کرتے ہیں”
ایاز رضا
ملاگوری ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کا سب سے گنجان آباد علاقہ ہے، جمرود بازار کے شمال مشرق میں پانچ کلومیڑ کی دوری پر واقع ہے۔ دو ہزار سترہ مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً پچاس ہزار اور ملاگوری کے چار قبائل یہاں پر آباد ہیں جن میں تارخیل، احمد خیل، پہاڑ خیل اور دولت خیل شامل ہیں۔
پاکستان میں اصلی ماربل ملاگوری میں پایا جاتا ہے۔ ویسے تو مہمند اور باجوڑ میں بھی ماربل کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ اس حوالے سے کئی دہائیوں سے ماربل کے روزگار سے وابستہ ملک زرملال ملاگوری نے بتایا کہ اصل ماربل پاکستان میں بہت کم پایا جاتا ہے، ملاگوری سے نکلنے والے ماربل ہی اصلی جبکہ باقیوں کو ہم صرف خوبصورت اور شفاف پتھروں میں شمار کرتے ہیں، اس کے علاوہ بلوچستان میں بھی کئی ایک مقام پر اصلی ماربل پایا جاتا ہے، ملاگوری میں صرف سفید ماربل کے ذخائر موجود ہیں، اس کی ایک الگ پہچان اور مقام ہے۔
صنعت کار حاجی روزی گل ملاگوری 1984ء سے ماربل کے روزگار سے وابستہ ہیں. اُن کا کہنا تھا کہ ملاگوری میں ماربل کے ذخائر کی پٹی تحصیل جمرود کے علاقہ لاشوڑہ سے شروع اور دریائے کابل کے اُس طرف ضلع مہمند تک پھیلی ہوئی ہے، جس کی لمبائی 13 کلومیٹر بنتی ہے جبکہ 7 مربع کلومیٹر پر ماربل کے ذخائر موجود ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ یہاں پر تاتارہ، توردرہ، اوو چینہ، دوردانہ، لنڈئی، صابونی اور شہید مینہ وہ مقامات ہیں جہاں سے ماربل نکالے جاتے ہیں، ”یہاں پر ماربل کے 500 کارخانے ہیں اور ہر ایک کارخانے میں دس سے بیس مزدور کام کرتے ہیں، مقامی لوگوں کے معاش کا وسیلہ بھی یہی ماربل کارخانے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کی جانب سے بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور اوور بلنگ نے یہاں پر کاروباری زندگی مفلوج کر دی ہے۔
ماربل انڈسٹری سے وابستہ افراد نے بتایا کہ حکومت اور کارخانہ داروں کے درمیان 1986ء سے 1991ء تک فلیٹ ریٹ کے تحت ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت ہر ایک کارخانہ ماہانہ دو ہزار روپے بجلی کا بل ادا کرے گا لیکن وقت کے ساتھ اس میں ماربل فیکٹری مالکان کے ساتھ بغیر کسی مشاورت کے اضافہ ہوتا گیا اور پچاس سے ساٹھ ہزار روپے تک بات پہنچ گئی، ملاگوری میں قائم ماربل کے کارخانوں کے لئے مہمند ایجنسی، نوشہرہ اور بونیر سے بڑے سائز کے پتھر لائے جاتے ہیں لیکن مچنی پل کو خیبر اور مہمند ضلع کو ملانے والے پل پر مہمند سے بھاری گاڑیوں کی آمد پر حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے اور موقف اپنایا ہے کہ پل ٹوٹنے کا خطرہ ہے، ایک گاڑی میں تقریباً 30 سے 35 ٹن وزن ہوتا ہے، شبقدر اور پشاور سے ہوتے ہوئے یہاں پر پہنچے والے پتھر پر فی من آٹھ روپے زیادہ خرچہ ہوتا ہے، بار بار کوشش کے باوجود بھی پل پر مہمند سے آنے والی بھاری گاڑیوں کو آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
ملک حاجی روزی گل کا کہنا تھا کہ سہولیات کی کمی کے باعث ساٹھ فیصد سے زیادہ ماربل ضائع ہو جاتا ہے، اس وجہ سے ملاگوری میں بڑے سائز کے ماربل کو نہیں نکالا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے کان کے مالک، کارخانہ دار اور مزدوروں کے معاشی حالات پر براہ راست اثر ہوتا ہے، کان میں پتھر کو بغیر مشینری اور بارود کے نکالا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہاں پر کام کرنے والے مزدور بھی مختلف خطرات کا سامنا کرتے ہیں اور یہاں پر اوسطاً سالانہ دو تین مزدور حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
لیاقت کا تعلق ضلع خیبر کے علاقے ملاگوری لوڑہ مینہ سے ہے اور پچھلے بارہ سالوں سے ماربل کی کانوں میں بحیثیت ڈرل مین کام کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پہاڑ میں کام کے لئے رسیوں کا استعمال کرتے ہیں اور اُن کی مدد سے ڈرل مشین جس کا وزن تقریباً چالیس کلوگرام ہوتا ہے اپنے ساتھ اُس مقام تک پہنچاتے ہیں جہاں سے ماربل نکلانا ہوتا ہے۔
ان کے بقول یہ کافی خطرناک کام ہے کیونکہ اُن کا پہاڑ سے بچ نکلنے کا ایک ہی سہارا یہ رسی ہوتی ہے، ایک ہاتھ میں رسی جبکہ دوسرے میں مشین ہوتی ہے، کسی بھی وقت کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آ سکتا ہے، ملاگوری ماربل زون کو خسارے سے نکالنے کیلئے ٹھوس، عملی اور پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہے اور بروقت حکومتی اقدامات سے ہزاروں مقامی لوگ مستفید جبکہ ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔