خواجہ سراء کوکونٹ کے قاتل کون، حکومت خاموش تماشائی کا کردار کیوں نبھا رہی ہے؟
عبدالستار
مردان میں ایک اور خواجہ سرا کو قتل اور دوسرے کو شدید زخمی کر دیا گیا جبکہ پشاور میں ایک خواجہ سرا کو اغواکاروں سے بازیاب کرا لیا گیا۔
پولیس سٹیشن صدر کے عملے کے مطابق خواجہ سرا علاقہ منگاہ میں شادی کے ایک پروگرام سے واپس آ رہے تھے کہ مردان چارسدہ روڈ پر میوزیم کے قریب نامعلوم موٹرسائیکل سوار ملزمان نے خواجہ سرا کی موٹرکار پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک خواجہ سرا صادق عرف کوکونٹ جاں بحق جبکہ دوسرا ساتھی سلمان عرف وڑہ شدید زخمی ہو گیا۔ زخمی خواجہ سرا نے مردان میڈیکل کمپلیکس میں پولیس کو بتایا کہ ملزمان نے اپنے چہرے ماسک کے زریعے چھپائے ہوئے تھے اور واردات کے بعد فرار ہو گئے۔
پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف قتل اور اقدام قتل کے مقدمات درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ خیال رہے کہ ضلع مردان میں رواں ماہ یہ دوسرا خواجہ سرا ہے جسے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔
دوسری جانب پشاور کے تھانہ چمکنی کی حدود میں ایک خواجہ سرا شیزا کو ملزمان اغوا کر رہے تھے کہ پولیس ناکہ بندی پر گرفتار کر لئے گئے۔ پولیس کے مطابق خواجہ سراء ارسلان عرف شیزا جھگڑا کے علاقے میں موسیقی کے بعد واپس ٹیکسی کار میں جا رہا تھا کہ جی ٹی روڈ پر سردار گڑھی میں اسلحہ کی نوک پر ملزمان نے اسے اغوا کر لیا۔ پولیس نے ناکہ بندی کر کے شیزا کو اغواکاروں سے بازیاب کرایا اور پانچ ملزمان کو اسلحے سمیت گرفتار کر کے مقدمات درج کر لئے۔ ملزمان کا تعلق ارمڑ، تاروجبہ اور اندرون شہر کے مختلف علاقوں سے بتایا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں خواجہ سراوں کے حقوق پر کام کرنے والے سول سوسائٹی کے کوآرڈینیٹر تیمور کمال نے کہا کہ بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں ابھی تک خواجہ سراؤن کے تحفظ کے لئے نہ کوئی قانون سازی ہو سکی اور نہ ہی ان کے تحفظ کو ابھی تک کسی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق میں ملک کی سطح پر ٹرانسجینڈر کے لئے قانون سازی موجود ہے لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے اپنے لئے قانون سازی کریں گے اور اب تک خیبر پختونخوا حکومت نے خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی۔
تمیور کمال نے کہا کہ دو ہزار پندرہ سے اب تک 76 خواجہ سرا قتل کئے گئے اور سینکڑوں کی تعداد میں تشدد کا شکار ہو چکے ہیں اور مقدموں میں نامزد اکثریت ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے کمزور ایف آئی آر اور ناقص تفتیش کی وجہ سے عدالتوں سے ملزمان رہا ہو جاتے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم بلیو وین کے قمر نسیم نے بتایا کہ وفاق کی سطح پر 2018 میں ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشن ایکٹ بنایا گیا ہے اور پورے ملک میں نافذ العمل ہے اور خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے تحفظ کے حوالے سے صوبائی اسمبلی میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے، ڈرافٹ اسمبلی میں جمع ہو گئی ہے لیکن ابھی تک اسے بحث کے لئے آگے نہیں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دو ہزار پندرہ سے صوبائی حکومت کہہ رہی ہے حواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے پالیسی بنائیں گے لیکن ابھی تک اس کی کوئی نوٹیفیکشن نہیں ہوئی۔
قمر نسیم نے کہا کہ خواجہ سرا مردوں اور خواتین کی طرح تحفظ کا حق رکھتے ہیں اور تحفظ دینے والے اداروں کا فرض بنتا ہے لیکن ابھی تک تمام صوبائی حکومتوں کی جو ذمہ داری بنتی ہے وہ ابھی تک پوری نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کو چائیے کہ وہ اپنے آپ کو سماجی بہبود محکمے کے ساتھ رجسٹرڈ کریں تاکہ ان کے صحیح اعداد سامنے آ سکیں۔
پشاور میں ٹرانسجنڈر کے رہنما آرزو نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس نے کمیٹی خواجہ سراوں پر تشدد کے حوالے سے بنائی تھی لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا اور وہ کمیٹی غیرفعال بنا دی گئی، اگر وہ کمیٹی کام کرتی تو خواجہ سراوں پر تشدد کے کیسز کم ہو جاتے، ”وزیراعلی خیبر پختونخوا کو چاہیے کہ خواجہ سراؤں کے قتل اور ان پر تشدد کا نوٹس لیں اور اس کی روک تھام کے لئے اقدامات کریں۔
آرزو نے کہا کہ خواجہ سراؤں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف 28 مارچ کو پشاور میں احتجاجی دھرنا دیں گے۔
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراوں کے حقوق پر کام کرنے والے خواجہ سرا نادرہ نے کہا کہ پچھلے دنوں مانسہرہ میں بھی خواجہ سرا کے ڈیرے پر ایک ملزم نے دن دیہاڑےحملہ کر کے پانچ خواجہ سراوں پر فائرنگ کی جس میں ایک خواجہ سرا ہسپتال میں دم توڑ گیا جبکہ ایک خواجہ سرا گولی لگنے سے معذور ہو گیا ہے اور باقی تین ہسپتال میں علاج کے بعد اب گھر بھیج دیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مانسہرہ میں خواجہ سراؤں پر تشدد کا یہ تیسرا واقعہ ہے اور اس سے پہلے بھی تین خواجہ سراؤں کو شدید زخمی کیا گیا تھا۔
نادرہ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ خواجہ سراؤں کو ہر ضلع میں ایک شلٹر ہوم دیا جائے اور صوبائی حکومت کے پاس خواجہ سراؤں کی فلاح بہبود کے لئے رکھے گئے پیسے شلٹر ہوم پر خرچ کئے جائیں اور بزرگ خواجہ سراؤں کیلئے وظیفہ مقرر کیا جائے۔