افغان پناہ گزینوں کو پشاور کے ہسپتالوں سے کیا شکایت ہے؟
شمائلہ آفریدی
افغانستان کے شہر جلال آباد کے رہائشی اجمل کچھ ماہ قبل تک پرسکون تھے تاہم صحت کی بعض خرابیوں نے انہیں فکرمند کر دیا۔ اجمل گردوں کے مریض تھے اور اس کے ساتھ ان کی پسلی کے نیچے ایک پھوڑا/دانہ بھی نکل آیا جس پر وہاں کے ڈاکٹروں نے انہیں پشاور کے ایک نجی ہسپتال ریفر کر دیا۔
اجمل کے مطابق اس ہسپتال میں علاج بہت مہنگا تھا اور وہ نہیں کر سکتے تھے کہ وہاں سے اپنا علاج کرواتے لیکن پھر دوست و رشتہ داروں نے ان کی مالی مدد کی جس کے بعد وہ ادھر ہسپتال اپنا علاج کرنے آ گئے، ”میری اب بھی اتنی استطاعت نہیں کہ یہاں اپنا علاج جاری رکھ سکوں لیکن اللہ بھلا کرے دوست احباب کا جنہوں نے میری مدد کی، کسی نے زکوۃ تو کسی نے قرض حسنہ دیا، میری اپنی تو ہزار روپے کی بساط بھی نہیں تھی، اور یہ جو دانہ تھا، جو تکلیف مجھے پیش آئی تو یہ بہت مضر تھا، لوگ باگ اور ڈاکٹر مجھے بتا رہے تھے کہ اس ہسپتال میں علاج معالجہ اچھا ہو گا، باقی ہسپتالوں میں اس طرح کی سہولیات نہیں تھیں۔”
پشاور کے اس نجی ہسپتال میں اجمل کے علاوہ بھی متعدد افغان زیرعلاج ہیں جو یا تو یہاں علاج معالجے کی سہولیات افورڈ کر سکتے ہیں یا پھر اجمل کی طرح ان کے ساتھ بھی کسی نے مالی امداد کی ہے۔ اس سلسلے میں ان افغان پناہ گزینوں کو زیادہ مشکلات پیش آ رہی ہیں جو گذشتہ سال افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان ہجرت کر کے آئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پناہ گزینوں کی مالی حالت ایسی نہیں جو ان مہنگے ہسپتالوں سے اپنا علاج کروا سکیں۔
کابل سے آئیں بی بی حرا بھی گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پشاور کے ایک نجی ہسپتال سے اپنا علاج کروا رہی ہیں لیکن ان کو بھی یہی شکایت ہے کہ ہسپتال کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے، ”افغانوں کا جو علاج یہاں ہوتا ہے وہ بہت زیادہ مہنگا ہے، جو غریب ہیں ان کے بس سے باہر ہے کہ وہ اپنا علاج کروا سکیں، دو ہزار ان کی صرف فیس ہے، الٹراساؤنڈ کے اگر کہیں اور دو ہزار لیتے ہیں تو یہاں تین چار ہزار روے لیتے ہیں، غریبوں کے لئے یہ بہت مشکل ہے تو میری ہسپتال انتظامیہ سے گزارش ہے کہ افغان مہاجرین کے ساتھ رعایت کیا کریں کیونکہ افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں تو ان کے ساتھ گزارہ کریں، آپریشن کی فیس کم کریں، ہو سکتا ہے میرا آپریشن کہیں اور چالیس ہزار میں ہو جاتا، میں نے ان سے استدعا کی کہ ہمارے ساتھ رعایت کریں تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں کر سکتے۔”
بی بی حرا کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں صحت کی سہولیات پہلے سے ہی کم تھیں جبکہ حکومت کی تبدیلی کے بعد دیگر امور کی طرح ہسپتالوں کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بیشتر مریض ادھر پشاور کا رخ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب پشاور کے ایک نجی ہسپتال رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ (آر ایم آئی) میں فرائض سرانجام دینے والے ڈاکٹر عاصم کا کہنا تھا کہ نجی ہپستالوں میں اگر زیادہ فیس لی جاتی ہے تو بدلے میں صحت کی بہترین سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں کی طرح نجی ہسپتالوں میں بھی بغیر قانونی دستاویزات کے افغانوں کا علاج معالجہ نہیں کیا جاتا لیکن پھر بھی زیادہ تر مریض نجی ہسپتالوں کا رخ اس لئے بھی کرتے ہیں کہ یہاں دستاویزات جمع کرنے میں تھوڑی آسانی ہوتی ہے۔
”بنیادی طور پر افغانوں کے پاس پاسپورٹ کی موجودگی لازمی ہوتی ہے، اگر پاسپورٹ نا ہو تو ٹوکن یا تذکیرہ ضروری ہوتے ہیں، کاغذات اگر افغانی نا ہوں پاکستانی بھی ہوں تو شناختی کارڈ لازمی ہوتا ہے، یہ پابندی ہم نے اس لئے شروع کی ہے کہ اس کے بغیر ہم داخلہ نہیں دیتے، پاسپورٹ ضروری ہوتا ہے، نا ہو تو شناختی کارڈ یا پھر جسے افغان تذکیرہ کہتے ہیں تو اس کے بغیر یہاں آر ایم آئی میں داخلہ نہیں دیا جاتا ہے، بنیادی طور پر مریض سے یہ ڈیٹا اس لئے لیا جاتا ہے تاکہ مریض کی صحیح/درست شناخت ہو سکے، نام عمر وغیرہ، ہم محض لا اینڈ آرڈر کی وجہ سے یہ ڈیٹا نہیں مانگتے بلکہ ہسپتال میں ایک ہی نام کے دو یا تین مریض بھی ہو سکتے ہیں مختلف عمروں کے، تو مریض کی شناخت لازمی ہے، علاج کے ساتھ ساتھ یہ شناخت بہت ضروری ہوتی ہے۔” انہوں نے بتایا۔
افغان پناہ گزین مہنگے علاج کے لئے نجی ہسپتالوں کو جانے پر خواہ جتنے بھی مجبور ہوں لیکن پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں ان کے علاج کا طریقہ کار آسان بنایا جائے جبکہ نجی ہسپتالوں کی فیسوں پر بھی حکومت پاکستان نظر رکھے۔