کرن خان معاملہ: کیا فنِ موسیقی سے صرف مرد فنکار ہی وابستہ ہیں؟
حنا گل
موسیقی ایک فن ہے اور فن ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ ثقافت ہی ایک قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ اس پہچان کو برقرار رکھنے میں فنکاروں، موسیقاروں اور شاعروں کا اہم کردار ہوتا ہے، یہ لوگ نا ہوں تو ثقافت کا تصور ہی باقی نا رہے۔ اگر یہ عظیم ہستیاں بحفاظت زندگی گزارتے رہے تو ثقافت اور فن دونوں زندہ بھی رہیں گے اور محفوظ بھی!
پولیس کا کرن خان کے کنسرٹ پر چھاپا مارنا اور بے قدری سے وہاں موجود لوگوں کو گرفتار کرنا، موسیقی کے آلات کو زمین پر پٹخنے کو کسی بھی طور ایک اچھا فعل نہیں قرار دیا جا سکتا۔
پشتو موسیقی پشتو ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے، اس کی قدر فنکاروں اور موسیقاروں کے پاس ہوتی ہے۔ محفل موسیقی پر پولیس کا اس طرح چھاپہ مارنا ایک غلط فعل ہے کیونکہ پولیس حفاظت کرنے والا محکمہ ہے، پولیس کا کام پرامن طریقے سے ایک چیز کو روکنا ہے لیکن پولیس کا اس طرح چھاپا مارنا اپنی ثقافت کے ایک حصے کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پولیس نے چھاپہ مار کر ایک فنکار اور فن کی بے عزتی کی ہے، پولیس جا کر اس محفل کو ایک حکم دے کر بند کر سکتی تھی تو پھر توڑ پھوڑ کی کیا ضرورت تھی؟
پولیس کے اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس خود کو طاقتور سمجھتی ہے اور اس کو اس مٹی کے فن اور فنکار کی کوئی پرواہ نہیں۔
لیکن پولیس کی اس ناقدری کے جواب میں ہمارے فنکاروں اور فنکار دوست شہریوں نے گذشتہ پیر کو پریس کلب کے سامنے ایک انوکھا احتجاج کر کے دیا، موسیقاروں نے آلات موسیقی جبکہ مظاہرین نے اس موقع پر ”اتنڑ” (بھنگڑا) کی شکل میں نا صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ فن و فنکار سے اپنی محبت کا ثبوت بھی دیا۔
احتجاج میں شریک خیبر پختونخوا کے موسیقاروں اور دیگر شہریوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے فن کی بے قدری نہ کی جائے بلکہ ہمیں اور ہمارے اس فن کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
قابل ذکر امر مگر اس احتجاج میں یہ رہا کہ اس میں سارے مرد موسیقاروں نے ہی حصہ لیا، گو کہ یہ ایک اچھا قدم تھا لیکن موسیقی سے صرف مرد فنکار وابستہ نہیں ہیں بلکہ بہت سی خواتین بھی موسیقی سے وابستہ ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ بھی اس موقع پر اپنی شرکت یقینی بنا کر اس پیغام کو اور موثر بناتیں۔
موسیقی ایک فن ہے اور اس کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانا پر لازم ہے اور جب فن کے تحفظ کی بات آتی ہے تو صرف مرد موسیقاروں یا گلوکاروں پر لازم نہیں کہ وہ اس کے حق میں احتجاج کریں بلکہ خواتین گلوکاراؤں پر بھی لازم ہے کہ وہ اس کے تحفظ کیلئے آواز اٹھائیں۔ لیکن پیر کے روز پولیس کے رویے کے خلاف جو احتجاج کیا گیا اس میں کوئی خاتون نہیں تھی، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فنی موسیقی سے صرف مرد ہی وابستہ ہیں۔
خواتین گلوکاراؤں کی عدم موجودگی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ادھر اہم معاملات کی خواتین کو خبر تک نہیں ہوتی، بہت سی خواتین گلوکاراؤں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ اس طرح کا کوئی واقعہ ہوا ہے۔
جب ہم ایک شعبے سے بستہ ہوتے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کا تحفظ کریں اور اگر اس شعبہ کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو اس کے لئے آواز اٹھانا مرد اور عورت دونوں پر لازم ہے۔
عرض ہے کہ اگر موسیقی کے اس فن کو پامال کیا گیا تو ہماری پہچان (ثقافت) مٹ جائے گی۔ شاعر اور فنکار تو امن کے سفیر ہوتے ہیں، اگر یہ لوگ بحفاظت ہوں گے تو فن بھی رہے گا اور ایک قوم کی پہچان بھی باقی رہے گی۔